کامیابی کا راز
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
غربت اور کسمپرسی کے عالم میں ایک نوجوان اپنے گائوں سے روزی کمانے کے لیے نکلا اور شہر پہنچ کر لوہے کی ایک فیکٹری میں لوہا کوٹنے کا کام شروع کر دیا۔ وہ عزم کا پختہ تھا، لگن سے اپنا کام کرتا رہا اور چند ہی سالوں میں وہ مزدور سے سپروائزر ہوگیا۔ اس معمولی ترقی نے اس کو ہمت اور آگے بڑھنے کے جنون کو مزید تقویت دی۔ اس نے اپنی محنت دگنی کردی اور پھر کچھ عرصے میں ترقی کرتے کرتے وہ مینجر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ ایک دن اس کو خیال آیا کہ اگر میں مزدور سے سپروائزر اور پھر منیجر بن سکتا ہوں تو پھر مالک بھی بن سکتا ہوں۔ سو، اس نے ملازمت چھوڑ کر اپنی اسٹیل انڈسٹری کا آغاز کیا۔ اور صرف مالک بننے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس وقت پورے ملک کو جتنا لوہا درکار تھا۔ اس کا ایک تہائی اس نے فراہم کرنے کا اعلان کیا اور کرکے بھی دکھایا۔ مختصر عرصے میں ایک مثالی ترقی کرنے والے اس شخصیت کو دنیا ’’ اینڈریو کارنیگی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
انڈریو کارنیگی نے ایک بڑی اچھی مثال یہ قائم کی کہ مرنے سے پہلے اپنی تمام دولت کا 80فیصد حصہ ملک کی لائبریریوں اور تحقیقی اداروں کے لیے وقف کیا۔ یہ ایک ایسی کاوش تھی۔ جس نے اس وقت امریکی قوم کو فکری اور شعوری طور پر ترقی کرنے کے لیے بے تحاشا فائدہ دیا۔
اینڈریو کارنیگی نے آنے والے زمانے اور اس کے تقاضوں کو بھانپا اور اس کے مطابق اپنی قوم کے ساتھ یہ نیکی کر ڈالی کہ پورے ملک میں علمی و تحقیقی اداروں کا جال بچھا دیا۔
کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد جب وہ بامِ عروج پہ تھا، تو ایک دِن اس کے دل میں ایک خیال آیا کہ میں ’’ زیرو سے ہیرو‘‘ بن گیا۔ تو کیوں نہ اپنی اس کامیابی اور اس کے پیچھے بنیادی عوامل کو منظرِ عام پر لے آئوں، تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کو عمل میں لاکر کامیابی حاصل کر لیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے اخبار میں اشتہار دیا کہ جو شخص میرا انٹرویو کرنا چاہتا ہے وہ مجھ سے ملے، چنانچہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔ اینڈریو کارنیگی نے سب سے ملاقات کی، مگر اس کو کوئی متاثر نہ کر سکا۔ آنے والوں میں ایک جوان ’’ نپولین ہل‘‘ بھی تھا، اینڈریو کو یہ جوان کچھ غیر معمولی دکھائی دیا۔ اس نے بغور مشاہدہ کیا۔ تو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ کام سے لگن رکھنے والا ایک بہترین رائٹر یعنی لکھاری ہے۔ اینڈریو بولا۔ ’’ جوان۔ میرے پاس تمہارے لیے ایک آفر ہے اگر تم میرے ساتھ کام کرنا چاہو تو ہم مل کر ’’ کامیابی ‘‘ کے موضوع پر ریسرچ کریں گے۔ میں ایک کامیاب انسان ہوں اور اس وقت کے کامیاب اور مقبول ترین افراد میرے دوستوں میں شامل ہیں۔ ایڈیسن میرا دوست ہے۔ میرے دوسرے دوست کا نام برج اسٹون ہے۔ ایک دوست کا نام فورڈ ہے، جس نے مشہور زمانہ فورڈ گاڑی ایجاد کی تھی‘‘۔ پھر مزید کہا۔ ’’ یہ میں نے صرف تین نام گنوائے ہیں، اس طرح سات سو کامیاب بزنس مین میرے دوست ہیں‘‘۔ یہ سن کر نپولین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، اس نے پوچھا۔’’ مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘۔ اینڈریو نے جواب دیا ’’ میں اپنے لیٹر پیڈ پہ تمہیں ایک خط لکھ کر دوں گا، جس طرح تم مجھ سے ملے ہو، اسی طرح یہ سب لوگ آپ سے ملیں گے، جس کے بعد آپ ان کا اپنی مرضی سے انٹرویو کرسکتے ہو۔ لیکن اس کے ساتھ میری ایک شرط ہے‘‘۔ اینڈریو نے بھرپور سنجیدگی سے کہا، ’’ وہ یہ کہ تمہیں اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا‘‘۔ اینڈریو نے نپولین کو بغور دیکھا، وہ سمجھا کہ یہ ابھی یہاں سے اٹھ کر جانے لگے گا کہ اتنی محنت اور پیسہ ایک بھی نہیں، مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب جوان نپولین نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا’’ Done‘‘۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو جس چیز سے عشق ہوتا ہے۔ اس کے معاوضے کی پروا ختم ہوجاتی ہے۔ جو بھی انسان یہ سوچتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیابی کی کوئی مخصوص تعریف نہیں ہوتی، ہر انسان کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اگر ہم یوں کہہ لیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی بھی اچیومنٹ اور ہدف کو حاصل کر لینے کا نام کامیابی ہے اور آج کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ کامیابی کے لیے مخصوص میدان اور فیلڈ کا ہونا ضروری ہے۔ جس انسان نے دل و دماغ کے دس ہزار گھنٹے کسی بھی کام میں لگائے ہوتے ہیں وہ اس کا ’’ ماہر‘‘ بن جاتا ہے اور تب وہ آسانی سے ترقی کر سکتا ہے۔
نپولین نے اپنی ریسرچ کا آغاز کر دیا، یہ دنیا کی طویل ریسرچ تھی۔ جس پر سولہ سال کا عرصہ لگا۔ وہ اس وقت کے کامیابی ترین شخصیات سے ملا اور ان سب افراد کے انٹرویوز کرنے کے بعد، کامیابی پانے میں ان کے اندر جو بنیادی مشترک عادات تھیں، ان کو ڈھونڈا۔ اس کو چودہ ایسی عادات کا علم ہوا جو ان تمام شخصیات میں مشترک تھیں اور ان سب کو اس نے Think & grow rich نامی اپنی کتاب میں بیان کر دیا۔ نپولین کی تحقیق کے مطابق ان تمام شخصیات کی کامیابی کے پیچھے مندرجہ ذیل خصوصیات تھیں۔
1۔ کامیابی کے بارے میں سوچنا۔۔۔۔
یہ تمام لوگ اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کے تمام نظام اور ساری صورتحال کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ میں کیوں کامیاب نہیں ہو رہا ؟ وہ سوچتے ہیں کہ میں جہاں سے چلا تھا آج بھی وہیں پہ ہوں، کیوں ؟۔
2۔ جذبہ و جنون۔۔۔۔
دوسری چیز ان لوگوں میں جنون والی عادت تھی، جس کو ہم پاگل پن بھی کہہ سکتے ہیں۔
3۔ یقین۔۔۔
ان سب کو یقین تھا کہ ہم کچھ کر جائیں گے۔ انسان کو اپنی دعائوں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اور اپنی محنت پہ یقین ہونا چاہئے۔
4۔ خود کلامی۔۔۔
مائنڈ چونکہ ایک جگہ نہیں رہتا، اس کو باندھنے کا آسان طریقہ خودکلامی ہے۔ یہ تمام لوگ خود کو سمجھاتے تھے، کہ وہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے آئے ہیں۔
5۔ مخصوص فیلڈ۔۔۔
ان تمام کامیاب لوگوں نے ایک مخصوص فیلڈ کو پکڑ کر اس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جیسے ایڈیسن نے بلب کو پکڑ لیا تھا، برج اسٹون نے گاڑی پکڑ لی، اینڈریو کارنیگی نے اسٹیل انڈسٹری پکڑ لی۔
6۔ تخلیقیت۔۔۔۔
انسان کا ذہن الفاظ اور جملوں میں نہیں سوچتا، بلکہ یہ تصاویر اور منظر میں سوچتا ہے۔ یہ تمام کامیاب لوگ بھی تخیل نگاری اور امیجی نیشن کے گرو تھے، یہ خواب دیکھتے تھے اور خواب دیکھنے کے بعد اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد شروع کر دیتے تھے اور پھر کامیاب ہوجاتے۔ ویسے بھی کسی نے کہا۔
Dream is language of God
ہم میں سے اکثر لوگ خواب نہیں دیکھ سکتے۔ تخیل ساز ذہن والا انسان ہی ترقی کر سکتا ہے۔۔۔
Imagination اور تخیل کتنا ہے، وہ کس قدر تخلیقی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔۔۔