بچپن سے نصیب تک
محمد نورالہدیٰ
بچپن کے کھیل ختم ہوتے ہیں تو نصیب کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ بچپن کے معصوم خوابوں کی جگہ نصیب کی لکیروں کی گہرائیاں جنم لیتی ہیں تو اک نئے سفر کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ سفر بالخصوص ان والدین کیلئے زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے، جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اپنی بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش بھی ہونا چاہتے ہیں اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر بھی چلنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر بیوہ مائوں کیلئے اپنی بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری ادا کرنا انتہائی کٹھن ہوتا ہے۔ یوں زندگی کا سفر بچپن کے کھیل کود سے نکل کر خوابوں اور امیدوں کی دہلیز پر آکر رک جاتا ہے۔
معاشرے کی بے جا بڑھتی رسومات نے والدین کیلئے بالخصوص لڑکیوں کی شادی کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک محدود آمدن والے خاندان میں جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو پیدائش کے ساتھ ہی والدین کو اس کے مستقبل کی فکر ستانے لگ جاتی ہے۔ زندگی کا سفر پلک جھپکتے گزر جاتا ہے اور بیٹی بچپن سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیتی ہے۔ یہ وقت کب ریت کی مانند مٹھی سے نکلا، خبر ہی نہیں ہونے دیتا۔ پھر خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں اور ذمہ داریوں کے آغاز کا اعلان ہوتا ہے۔ تب انسان زندگی کے نئے زاویوں سے آشنا ہوتا ہے۔ باپ چاہتا ہے کہ اپنی بیٹی کی زندگی میں رنگ بھرے،مگر وسائل کی کمی آڑے رہتی ہے۔ سماجی ضروریات پوری کرنا اس کیلئے اک مسئلہ بن جاتا ہے۔ بیٹی کی ذمہ داری نبھانا اس کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ یہ پریشانی اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کہ اس وقت پاکستان میں 35سال تک کی ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں مختلف وجوہات کی بنا پر غیر شادی شدہ ہیں۔ تاہم مزید تحقیق کی جائے تو یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور بتدریج بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب تقریباً 10لاکھ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ جبکہ بیوائیں 60لاکھ سے زائد کی تعداد میں موجود ہیں۔
آج کل کے دور میں شادی ایک معاشی اور معاشرتی آزمائش بن کر رہ گئی ہے۔ ذات پات، جہیز، آئیڈیل ازم، سٹینڈرڈ کی قید نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہر تیسرے گھر میں کم از کم35سال سے زائد ایک لڑکی موجود ہے جو معاشرے کی بے حسی کا شکار ہے۔ غریب اور متوسط طبقات، موجودہ حالات میں بیٹیوں کی شادی کا سوچ کر رنجیدہ ہیں۔ ایک متوسط گھرانے کیلئے بھی اپنی بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری نبھانا آسان نہیں رہا۔ بالخصوص آج کے دور میں، سماج کے بڑھتے تقاضوں اور توقعات کا بوجھ ان کے خوابوں اور امیدوں کی موت ثابت ہورہا ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کیلئے وسائل سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ کوشش ان پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہے۔ ہاتھ پیلے ہونے کی آس میں کتنے ہی چہرے وقت سے پہلے پیلے پڑ چکے ہیں۔
مگر اب کم وسیلہ والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے قرضہ نہیں لینا پڑے گا۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے صوبے کی غریب اور یتیم بیٹیوں کیلئے ’’ دھی رانی پروگرام‘‘ شروع کیا ہے۔ یتیم اور کم وسیلہ لڑکیوں کی شادی کیلئے خاندانوں کو معاونت فراہم کر نے کا یہ اقدام درحقیقت ایک ’’ احساس پروگرام‘‘ ہے، جس کا فائدہ معاشی لحاظ سے کمزور خاندانوں کو پہنچے گا۔ یہ منصوبہ والدین کو شادی کے غیر ضروری بوجھ سے آزاد کروائے گا۔
’’ دھی رانی پروگرام‘‘ ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب بھر میں 3000بچیوں کی شادی کا فریضہ سرانجام دیا جائے گا۔ شادی کے بندھن میں بندھنے والی بچیوں کو ایک خطیر مالیت کے تحائف اور شادی کے اخراجات کی مد میں 40ہزار روپے دئیے جائیں گے۔ دلہن کو ایک لاکھ روپے سلامی بھی دی جائے گی۔ 18سے 40سال کے درمیان کی یتیم اور معذور لڑکیاں اس پروگرام سے مستفید ہو سکیں گی۔ دلہن کو فرنیچر، ملبوسات، برتن اور دیگر متعلقہ اشیاء کے تحائف دینے کے ساتھ ساتھ ہر جوڑے کے 20مہمانوں کی تواضع بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے کی جائے گی۔
مریم نواز نے جو ذمہ داری اٹھائی ہے یہ کوئی چھوٹی ذمہ داری نہیں، ایک بہت بڑا فرض ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مریم نواز بحیثیت وزیر اعلیٰ والدین کو غیر ضروری اخراجات کے بوجھ سے آزاد کرنے کیلئے شادی کی تقاریب محدود کرنے اور سادگی کو فروغ دینے کیلئے جلد موثر قانون سازی بھی کریں گی۔ پنجاب حکومت نے جیسے شادیوں پر ون ڈش کی پابندی کو سختی سے نافذ کر رکھا ہے، ویسے ہی والدین کا بوجھ کم کرنے کیلئے اخراجات کی حد مقرر کرنے کیلئے بھی پالیسی لائی جانی چاہئے، الیکشن کمیشن اگر امیدوار کو الیکشن مہم کیلئے خرچے کی حد مقرر کرنے پر بائونڈ کر سکتا ہے تو کیا حکومت اس قومی مسئلہ پر سفید پوش والدین کا ساتھ نہیں دے سکتی؟۔ یہی معاشرتی ناہمواریاں ختم کرنے کیلئے پنجاب حکومت نے تو ’’ دھی رانی پروگرام‘‘ لانچ کر کے اپنی ذمہ داری محسوس کر لی۔ اب قومی سطح پر اس امر کی ضرورت ہے کہ معاشرہ بھی رسوم و رواج کی نام نہاد پابندیوں سے باہر نکلے اور ایک ایسا نظام لایا جائے جو والدین کو وسائل اور مذکورہ رکاوٹوں سے آزاد کرے۔ کیونکہ مسئلہ شادی کا نہیں بلکہ رویوں، انفرادی مطالبات، توقعات اور خواہشات کی بناء پر شادی پر اصرار کا ہے۔ قد، رنگت، اسٹیٹس، ترجیحات، معیار، امیدیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اصل چیز احساس ہے، مداوا ہے، جسے خود میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔