فلاحی ریاست کا ناقص تصور اور اس کے نتائج
حافظ محمد قاسم مغیرہ
پائیدار ترقی کے اہداف کے عدم تعین اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث وطن عزیز میں مقبول فیصلے کرنا کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے۔ ان مقبول فیصلوں کی فہرست بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاست کے نزدیک سستی شہرت اور تشہیر پائیدار ترقی سے زیادہ ضروری ہیں۔ وطن عزیز کی تینوں بڑی جماعتیں اپنے دور اقتدار میں اس قسم کے فیصلے کرتی رہی ہیں کہ جن سے اخبار کے ایک پورے صفحے کا اشتہار بن جاتا ہے، ٹاک شو کے لیے اچھا خاصا مواد مل جاتا ہے، سوشل میڈیا پر شور شرابی کے لیے کچھ چیزیں ہاتھ آجاتی ہیں۔ ان مقبول فیصلوں کے اشتہارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ اقوام عالم ہماری ترقی کو دیکھنے کے لیے سر اٹھائیں تو ان کی دستار گر پڑے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنے شور شرابے کے بعد بھی ترقی نہیں نظر آتی اور ہماری ناقص ترجیحات اور ترقی کے پست معیارات کے باعث ہماری قیادت کی ذہنی پس ماندگی عیاں ہوتی ہے۔ ترقی کے ایسے اہداف ایک جذباتی سیاسی کارکن کی تشفی کا باعث تو ہوسکتے ہیں لیکن اگر انہیں اقوام عالم کی ترقی کے پیمانوں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پرکھا جائے تو ہم کسی شمار میں نہیں آتے۔ ترقی کے اتنے فلک شگاف نعروں کے باوجود چراغ لے کر بھی نکلیں تو ترقی کہیں نظر نہ آئے۔ صحت، تعلیم، انصاف، روزگار، عزت نفس، بلند معیار زندگی، انفرا سٹرکچر، عدالتی و انتظامی اصلاحات، قانون کی بالادستی، جدید تقاضوں کے مطابق ہائر ایجوکیشن، تحقیق اور سائنسی ترقی سمیت کچھ دکھائی نہ دے۔ ریاست نے یہ سمجھ لیا ہے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی کے بجائے مفت شناختی کارڈ، سستی روٹی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، احساس پروگرام ، راشن کی مفت تقسیم ، سبسڈی، سرکاری سکولوں میں بیس روپے فیس اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت او پی ڈی زیادہ قابل عمل منصوبے ہیں۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ترقی کی درست سمت کا تعین نہیں ہو پاتا۔ ترقی کے پست اہداف اور مقبول فیصلوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں ، چند مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں ماہانہ فیس بیس روپے ہے۔ یہ بات بہت دل کش اور شان دار ہے لیکن اس کے نتائج بہت بھیانک اور تباہ کن ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بجٹ کا ایک قابل ذکر حصہ اشرافیہ کے سامان تعیش کی مد میں خرچ ہوتا ہے، معیشت غیر مستحکم ہے، ایکسپورٹس، اہداف سے بہت کم اور کاروباری طبقے سے ٹیکس کے حصول کی شرح بہت کم ہو، ماہانہ بیس روپے فیس سے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوتا بلکہ مزید گر جاتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں گرتے تعلیمی معیار کے باعث نجی شعبے نے مضبوطی سے قدم جما لیے اور پچھلے دو عشروں میں نجی سکولوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہ سکول ٹیکس اور احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ریاست کی طرف سے شعبہ تعلیم کی طرف توجہ نہ دینے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث اس شعبے نے انتہائی کم تنخواہوں پر پڑھے لکھے اور قابل اساتذہ کی خدمات حاصل کیں اور ان کا استحصال کیا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ ان کا اپنا سلیبس ہے جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے سلیبس کی نسبت کافی مہنگا ہے۔
نتیجتاً نجی پبلشرز کے لیے دولت کمانے کے دروازے کھل گئے۔ کچھ سکولوں نے اپنا نصاب شائع کرکے من مانی قیمتوں پر فروخت کرنا شروع کیا۔ اس وقت جب نجی پبلشرز کا دائرہ کار تیزی سے پھیل رہا تھا، ریاست سرکاری سکولوں میں مفت کتابیں بانٹ رہی تھی۔ مفت کتابوں نے بیس روپے فیس سے جنم لینے والے بے قدری کے احساس کو اور بھی بڑھایا اور سرکاری سکولوں کا معیار روز بہ روز گرتا گیا اور آج صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سرکاری سکولوں کی نج کاری کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ یہ تمام صورت حکومتوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اگر حکومت شعبہ تعلیم سے کچھ دل چسپی رکھتی ہے اور سرکاری سکولوں کے بلند تعلیمی معیار کا احیاء کرنا چاہتی ہے تو یہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم قدم یہ ہے کہ لوگوں پر بہت زیادہ بوجھ ڈالے بغیر اسے نفع بخش ادارہ بنایا جائے۔ سرکاری سکولوں میں داخلہ کے وقت طلبہ سے کم از کم پانچ سو روپے داخلہ فیس وصول کی جائے اور ماہانہ تعلیم کم از کم دو سو روپے رکھی جائے اور اس میں بہ تدریج اضافہ کیا جائے۔ مفت کتابوں کی فراہمی کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ کتابیں سال میں صرف ایک بار خریدنا ہوتی ہیں۔ کسی کو یہ کتابیں مفت فراہم کرکے اس کا کوئی بھلا نہیں ہوتا البتہ مجموعی طور ایک خطیر رقم خرچ ہوجاتی ہے اور اس کا معیار تعلیم پر کوئی مثبت اثر بھی نہیں ہوتا۔ ایک معقول قیمت پر کتابوں کی خریداری سے نہ صرف بے قدری کا احساس ختم ہوگا بل کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ بھی ایک نفع بخش ادارہ بن جائے گا۔ نجی شعبے سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ کتب کی اشاعت کی اجازت واپس لی جائے۔ سرکاری سکول کے طلباء کو تعلیمی بورڈ کی طرف فیسوں کی ادائیگی کی مدد میں حاصل تمام استثنا ختم کیے جائیں۔ اس ’’ مفتے‘‘ کے خاتمے سے بہ یک وقت تین ادارے یعنی سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور تعلیمی بورڈ۔ یہ سب منافع بخش ادارے بن جائیں گے۔
معیار تعلیم کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ خالی آسامیوں پر فوری نئی بھرتیوں کا اعلان کیا جائے۔ ایجوکیٹرز کو مستقل کیا جائے۔ تمام غیر تدریسی ذمہ داریوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ہیڈ ماسٹرز اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کے درمیان غیر ضروری خط کتابت فوری بند کی جائے۔ سکولوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ہیڈ ماسٹرز کی خصوصی تربیت کی جائے۔ تمام سکولوں میں سائنس لیب،کمپیوٹر لیب اور لائبریریوں کو فعال بنایا جائے۔ سرکاری سکولوں میں داخلے کے لیے ٹیسٹ منعقد کیا جائے اور سکول میں داخلے کے خواہش مند ہر طالب سے ٹیسٹ فیس وصول کی جائے۔ تعداد بڑھانے کے بجائے معیار پر توجہ دی جائے۔ جب معیار بہتر ہوگا تو تعداد خود بہ خود بڑھ جائے گی۔ نجی سکولوں کی طرز پر، سکول کے امتحان میں فیل ہونے والے طلباء کا داخلہ نہ بھیجا جائے۔ پرائمری اور ایلیمنٹری کلاسوں میں فیل ہونے والے طلباء کو کسی صورت اگلی جماعتوں میں ترقی نہ دی جائے۔ سرکاری سکولوں کے طلباء کے درمیان انگلش گرامر، املائ، سائنس اور ریاضی کے مقابلوں کا انعقاد کیا جائے۔ اگر ان تجاویز پر مستقل مزاجی سے عمل کیا جائے تو سرکاری سکولوں کا معیار بہتر ہوگا جو نتیجتاً طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا باعث بنے گا۔
’’ فلاحی‘‘ ریاست کی فراہم کردہ سہولت یعنی مفت او پی ڈی کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں آمدن کا ایک بڑا ذریعہ مستقل بند ہے۔ نزلہ ، زکام اور کھانسی وغیرہ کے علاج کے لیے تو ریاست حاضر ہے لیکن سنجیدہ نوعیت کی بیماریوں کے علاج کے وقت ریاست پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔ اگر آٹ ڈور مریضوں سے دو سو روپے فیس وصول کرلی جائے تو اس سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدن میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے، ایک مثال سے واضح ہوسکتا ہے۔ ایک روز مجھے ایک سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا اور اس روز کے آئوٹ ڈور مریضوں کی تعداد معلوم کی تو بتایا گیا کہ گیارہ سو پچاس مریضوں کا مفت چیک اپ ہوچکا ہے۔ ابھی دن ڈھلنے میں کچھ وقت باقی تھا اور مزید مریضوں کی آمد متوقع تھی۔ صوبے بھر کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں میں اگر آئوٹ ڈور مریضوں سے دو سو روپے فیس وصول کرلی جائے تو بلا مبالغہ محکمہ صحت کے بجٹ میں اربوں روپے کا اضافہ ممکن ہے اور وہ بھی عوام پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر۔
سرکاری ہسپتالوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ شعبہ صحت کا کنٹرول بھی نجی شعبے نے سنبھال لیا اور یہ شعبہ کسی ضابطے اور اخلاقیات کے بغیر کام کر رہا ہے۔ ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہے اور عوام کو جی بھر کے لوٹ رہا ہے۔
اگر ریاست نجی شعبے کو لگام دینا چاہتی ہے تو مفتوں کے بجائے معقول اور مناسب فیس وصول کرکے صحت اور تعلیم دونوں شعبوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے۔