Column

ایک نیا بحران سر پر کھڑا ہے

صورتحال
سیدہ عنبرین
وعدے کئے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ وعدہ خلافی کی جا سکے، یہ اصول ہمیں صرف پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی مختلف ادوار کی حکومت میں نظر آتا ہے، بادی النظر میں لگتا ہے 26ویں آئینی ترمیم میں بھی ایسا بہت کچھ ہوا جس کے فوراً بعد لاہور میں مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی کے راہنمائوں کے درمیان ایک ہنگامی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم پاکستان سے یہ ملاقات اسلام آباد میں ہو سکتی تھی لیکن وہ وہاں نہ تھے، پس ملاقات کیلئے بے چین فریق ثانی کو لاہور آنا پڑا۔ ملاقات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں تھی، لیکن اس میں کچھ دن باقی تھے، وزیراعظم کو سعودی عرب جانا تھا، یہ ملاقات واپسی پر بھی ہو سکتی تھی، پھر ایسی عجلت کیا تھی کہ ان کے جانے سے قبل بلاول بھٹو لاہور پہنچ گئے، راز سے پردہ، بلاول بھٹو کے ترمیم پاس ہونے کے بعد دیئے گئے بیان کے ایک فقرے سے اٹھتا ہے، انہوں نے کہا میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ جناب جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نہیں ہوں گے، گویا کہیں نہ کہیں یہ وعدہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد سے کیا ہو گا کہ ترامیم کی تمام شقوں پر ہمارا ساتھ دیں، ہم آپ کی یہ شرط مان لیں گے، آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اپوزیشن میں رہ کر حکومت کا ساتھ دینے والی ایک جماعت نے اس قدر خوشیاں منائیں جیسے کشمیر فتح کر آئے ہوں، کشمیری ان جماعتوں کے بارے میں قصیدے پڑھتے ہیں، وہ کشمیری راہنما آن دی ریکارڈ سناتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے لیکن سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مختلف حکومتوں نے اور ان کی کشمیر کمیٹی کے ساتھ ساتھ اس کے سربراہ نے کیا کیا گل کھلائے کہ گل و گلزار سے آراستہ جنت نظیر کشمیر پر بھارتی قبضہ کیسے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔
جو جماعتیں 26ویں آئینی ترمیم کو اپنی بڑی فتح قرار دے رہی تھیں وہ ترمیم پاس ہونے کے 48گھنٹے بعد ایسے گہرے سوگ میں نظر آتی ہیں جسے ان کے صحن میں کوئی جنازہ رکھا ہے۔ اپنی تراشیدہ ترمیم ہوتی تو منظر یہ نہ ہوتا، نغمہ کسی اور کا تھا، دھن کسی اور کی، آواز کسی اور کی، سامنے نظر آنے والے فنکار تو فقط لپ سنگنگ کر رہے تھے، وہ بھی ایسی کہ بیک گرائونڈ میں آنے والے کچھ اور جبکہ ان کے ہونٹ پر لفظ کچھ اور تھے۔ توقعات پوری نہ ہوئیں، قانون بنانے والے شاداں تھے انہوں نے پاکستان کے ایک آئینی ستون کو ہتھکڑیاں لگا دی ہیں۔ غور کیا تو معلوم ہوا اپنے پائوں میں اپنے ہاتھوں سے بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ یہ بیڑیاں ایک اور ترمیم سے کھولنے کی کوششیں کی جائے گی، جو کچھ 26 ویں ترمیم میں سے رہ گیا ہے وہ اس ترمیم میں ڈال دیا جائے گا ، جبکہ ماضی کے تلخ تجربے کے پیش نظر نگران حکومتیں ختم کرنے والی ترمیم بھی شامل ہے، کیونکہ سابق نگران حکومت سے وابستہ توقعات صد فیصد پوری نہیں ہوئیں۔ دو تہائی اکثریت مل سکی نہ سادہ اکثریت، لہٰذا آئندہ کی منصوبہ بندی کچھ یوں ہے کہ نگرانوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کر لیا جائے، نہ اکثریت سے دور رہنے کا رونا رہے نہ فارم 47کا خوف، مرزا یار بے خوف گلیوں میں پھرتا رہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج صاحبان کو زچ کرنے میں ناکامی ایک بڑی ناکامی ہے، کسی آئن سٹائن نے مشورہ دیا تھا کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کریں گے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے، یہ خواب بھی پورا نہ ہو سکا، حالانکہ پسندیدہ میڈیا میں سرکاری دانشور یہ فرمائشیں کرتے رہے کہ انہیں سپر سیڈ ہونے کے بعد مستعفی ہو جانا چاہئے، وہ یہ بھول گئے کہ یہ روایت صرف افواج کی حد تک ہے۔ وزیراعظم، صدر، سپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ یا کسی اور آئینی ادارے کی سربراہی کی دوڑ میں سپر سیڈ ہو جانے والے سے کبھی کسی نے یہ فرمائش نہیں کی۔ یہ فرمائش لغو ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے اور بدنیتی کے اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی بنیاد پر اچھے بھلے نظام کو یرغمال بنانے کی کوششیں کی گئیں۔
حکومت اعلیٰ عدلیہ میں اکثریت کا توازن اپنے حق میں رکھنے کیلئے جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، روز جمعہ تک شاید اس سلسلے میں راہ ہموار ہو جائے، آئینی بینچوں کے معاملے میں حکومتی سوچ ہے کہ وہ اپنا ضابطہ کار خود بنا لیں، وہ یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ کا اپنا ایک ضابطہ کار موجود ہے، حکومتی خواہش ایک نئے تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔ فل کورٹ اجلاس کے معاملے پر بھی خواہش سرکار پوری نہ ہو سکی، سوچا جا رہا تھا جناب جسٹس منصور علی شاہ عمرہ کی غرض سے ملک سے باہر ہیں، صورتحال سے ناخوش شخصیات اس اجلاس میں شریک نہ ہوں گی، یوں من کی مراد قریب آ جائے گی۔ معزز جسٹس صاحبان کی دانشمندی نے ایک اور تاریخ رقم کر دی، سب اس فل کورٹ اجلاس میں شریک ہوئے، جو ہزاروں کلو میٹر فاصلے پر تھے انہوں نے بذریعہ سکائپ نہ صرف شرکت کی بلکہ مفید مشورے دے کر پریشان حال قوم کا دل جیت لیا اور تاثر دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کو یرغمال نہیں بنیں دیں گے۔
ایک نئی فرمائش بھی سامنے آ رہی ہے کہ جناب چیف جسٹس کسی آئینی بینچ کے سربراہ نہ بنیں، کیوں؟ ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وہ بنیادی طور پر جج ہوتے ہیں اور بینچ میں ان کی حیثیت برابر کی ہوتی ہے، ادارے کا سربراہ ہونا ان کی بحیثیت جج اختیارات پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
حکومت کی طرف سے جس بات کی پُرزور تردید کی جائے وہ زیر زمین منصوبہ بندی کے مراحل میں ہوتی ہے، ماضی کا ریکارڈ یہی ہے۔ 27ویں ترمیم کے معاملے پر حکومتی ترجمان تردید پر تردید کرتے چلے آ رہے ہیں جس روز یہ قومی اسمبلی یا سینیٹ میں پیش ہو گی اس روز کیا منہ دکھائیں گے، کیا یہ کہنے کا حوصلہ کریں گے کہ ہم تو یہ ترمیم نہیں کرنا چاہتے، ہم نے یہ ڈرافٹ تیار ہی نہیں کیا، ابھی دیکھا ہے، ابھی پہنچا ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کس نے تیار کیا ہے، آسمان سے برسا ہے یا زمین نے اگلا ہے۔
متوقع آئینی ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم کے خد و خال بھی درست کرنے کا پروگرام ہے۔ آئی ایم ایف کی کچھ نئی فرمائشیں ہیں، وعدے کئے جا چکے تھے، لیکن وقت مانگا گیا تھا، اب ایگری کلچرل ٹیکس لگانے کا پروگرام ہے، کسانوں اور زمینداروں کی طرف سے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایوان میں بیٹھے بڑے زمیندار اس کی مخالفت کر رہے ہیں، لیکن آئی ایم ایف سر پر سوار ہے، ایک نیا بحران گندم کی کاشت میں کمی کی صورت سر پر کھڑا ہے، کسان بے حد ناراض ہے۔

جواب دیں

Back to top button