سپیشل رپورٹ

امریکہ میں انتخابی مہم کا آخری ہفتہ، کملا اور ٹرمپ میں کون وائٹ ہائوس پہنچے گا؟

واشنگٹن ( رپورٹ فرخ شہباز وڑائچ ) امریکی انتخابات کی گہما گہمی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جیسے جیسے دن قریب آ رہا ہے۔ صدارتی انتخابات کے لیے آئندہ پانچ نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے، جس کے لیے انتخابی مہم اب تقریبا اپنے آخری مرحلے میں پہنچ رہی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ زور شور سے انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔

کملا ہیرس نے واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہونے والے ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے طور پر بے لگام اقتدارکے خواہاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ہمیں معلوم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کون ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر نے سن 2020 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنے اور اپنے حق میں کرنے کی کوشش کے لیے امریکی کیپیٹل ہل میں مسلح ہجوم کو بھیج دیا تھا۔

واضح رہے کہ کملا ہیرس کی ریلی وائٹ ہاؤس کے پاس اسی مقام پر ہو رہی تھی، جہاں ٹرمپ نے چھ جنوری کے روز اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا اور پھر ان کے خطاب کے بعد ہی کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا گیا تھا۔

کملا ہیریس  نے اپنے خطاب میں کہا، اس شخص کو انتقام لینے کا جنون ہے، شکایات میں ہی مبتلا رہتا ہے۔

کملا ہیریس نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے امریکی عوام کو منقسم کرنے اور ایک دوسرے سے خوفزدہ رکھنے کی کوشش میں ایک دہائی کا وقت صرف کیا ہے، لیکن  آج رات میں یہ کہنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں کہ یہ وہ ہے نہیں، جو ہم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ وعدہ کرتی ہیں کہ وہ ملک کو پارٹی اور خود سے اوپر رکھیں گی۔

جلسے کے منتظمین کے مطابق، الیکشن سے صرف ایک ہفتہ قبل ہونے والی اس ریلی میں 75,000 افراد شامل ہوئے۔ تاہم اس تعداد کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

کملا ہیرس نے کہا کہ جب ہم وائٹ ہائوس جائیں گے تو ہمارے پاس کام کرنے کی ایک لمبی فہرست ہو گی اور اگر ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچتے ہیں تو ان پاس دشمنوں کی ایک فہرست ہو گی کہ ان سے بدلے کیسے لینے ہیں۔

کملا ہیرس نے دارالحکومت واشنگٹن میں بڑی ریلی کی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سے متصل ریاست پینسلوینیا میں انتخابی مہم چلائی، جو سونگ سٹیٹ میں شمار ہوتی ہے۔   ایلن ٹائون میں ایک  ریلی سے خطاب کیا۔ یہاں پر لاطینی امریکیوں کی اکثریت ہے۔

ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ترجمان کیرولین لیویٹ کے مطابق، کملا ہیرس جھوٹ بول رہی ہیں، وہ بے جا الفاظ کا استعمال کر رہی ہیں اور سچ کو تسلیم کرنے سے بچنے کے لیے ماضی سے چمٹی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کے جرائم کا بحران، آسمان تک پہنچنے والی مہنگائی اور عالمی جنگیں نائب صدر کملا ہیرس کی خوفناک پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔

ایکس کے مالک ایلن مسک ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نہ صرف جوش و خروش سے حصہ لے رہیں بلکہ اب تک لاکھوں ملین ڈالر بھی خرچ کر چکے ہیں۔  فنانشل ٹائمز کے مطابق، ایلون مسک کے علاوہ  ٹموتھی میلون، میریم ایڈلسن اور رچرڈ یوہیلین جیسے ارب پتیوں نے  بھی ٹرمپ کو کو 395 ملین ڈالر کا خطیر عطیہ دیا ہے۔

جبکہ گوگل ، مائیکرو سافٹ اور دیگر بڑے ادارے اور دیگر ارب پتی جیسے میلڈدا فرنچ گیٹس اور جارج سوروس نے کملا ہیرس کی حمایت کرنے والے گروپس کو لاکھوں ڈالر دیے۔

تاہم اس بار امریکہ کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ  روایت کے برعکس کسی بھی امیدوارکی حمایت نہیں کر رہے حالانکہ ماضی میں یہ اخبار ڈیموکریٹس کی حمایت کیا کرتا تھا اور اس دفعہ اس کے مالک جو  ایمازون کے بھی مالک ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے ۔ کیونکہ انھیں اندیشہ ہے کہ اگر ٹرمپ اقتدار میں آگیا ، تو وہ ان کے لیے  یا ان کے بزنس کے لیے  پریشانیاں پیدا  کریں گے۔ اسی طرح لاس اینجلس ٹائم بھی اس بار کسی امیدوار کی حمایت نہیں کر رہا۔

دوسری جانب امریکہ میں پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ہی کروڑوں لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں۔  کہا جا رہا ہے کہ اب تک 5 کروڑ سے زائد ووٹ ڈالے جا چکے ہیں ۔ یاد رہے کہ متعدد ریاستوں میں پولنگ ڈے سے پہلے یعنی ‘ارلی ووٹنگ’ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ارلی ووٹنگ کا فیصلہ ہر ریاست خود کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر ریاست میں اس کی تاریخ بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں ستمبر سے ہی قبل از ووٹنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button