بڑا منتقم ہے میرا لہو
صفدر علی حیدری
کہتے ہیں خوش قسمتی ہر انسان کے دروازے پر ایک بار ضرور دستک دیتی ہے۔ جو آٹھ کر دروازہ کھول دیتا ہے، کامیاب ہو جاتا ہے اور جو نہیں کھولتا، اس پر فتح و کامرانی کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
فراز نے شاید اسی حوالے سے کہا تھا:
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
اور کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
گویا آپ خوش قسمت تھے، آپ نے دروازہ کھولا اور پھر گھر سے نکلتے ہی آپ کو آپ کی منزل مل گئی اور وہ جس نے دروازہ کھولنے میں دیری کر دی، پھر وہ عمر بھر مسافر بن کر در در پھرتا رہتا ہے مگر کامیابی ان سے دور رہتی ہے۔
کسی عارف سے اس کے دوست نے راہ سلوک میں روحانی ترقی کا راز پوچھا تو وہ اپنی سفید ریش میں ہار پھیرتا ہوا بولا ’’ اس راہ میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں۔ دولت، عورت اور منصب۔ پہلی دو چیزوں پر تو میں نے عالم جوانی میں ہی قابو پا لیا تھا، اور ان سے بے نیاز ہو گیا تھا۔ ہاں البتہ منصب کی چاہ اب بھی، جبکہ قبر میں لٹکائے بیٹھا ہوں، راہ کی دیوار بنی ہوئی ہے ‘‘۔
ظاہر ہے انسان کو جب کوئی منصب ملتا ہے تو ’’ نزاکت ‘‘ آ ہی جاتی ہے۔ انسان کا نفس پھولتا ہے۔ جب کوئی اس کی عزت کرتا ہے تو انا کا سر اٹھتا ہے۔ جب کوئی جھک جاتا ہے تو نفس انسانی کو تسکین ملتی ہے۔ نفس کسی کم ظرف دوست جیسا ہوتا ہے۔ دوست پر احسان کرو وہ رام ہو جاتا ہے۔ مگر نفس پر جتنا احسان کرو اس کی سرکشی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ انسان کی انا اس کے نفس کا ایجنٹ ہے۔ انسان بڑا ہوتا ہے تو اس کے جسم اور تم و توش سے زیادہ اس کی انا بڑھتی ہے۔ اس کا قد انسان کے جثے سے کو بھی مات دے ڈالتا ہے۔ انسان کی انا اتھرے گھوڑے کی طرح دوڑتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان اس سے گر جاتا ہے اور اس کا پائوں اس کی باگ میں پھنس جاتا ہے۔ پھر وہ ایک عمر اس کے پیچھے گھسٹتا چلا جاتا ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان خودی اور انا کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ جس چیز کو اپنی خودی سمجھ رہا ہوتا ہے، وہ اس کی انا ہوتی ہے۔ اور انا نفس امارہ کا سب سے اچھا ہتھیار ہے۔ انسان انا کے خول میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔ انا پرست بن جاتا ہے۔ دم پرست ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی کوئی زندہ مثال دیکھنے ہو تو اپنے قاضی جی کی طرف دیکھ لیجئے ۔ انھیں ایک ایسا عہدہ اور منصب عطا ہوا کہ قانون کے شعبے میں اس سے بڑا کوئی اور منصب نہیں۔ یہ چاہتے تو ایک تاریخ رقم کر سکتے تھے۔ کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دے سکتے تھے کہ تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا مگر برا ہو انانیت کا، تعصب اور دم پرستی کا کہ جس نے ان سے معقولیت چھین لی۔
میں آپ سب سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ قاضی صاحب نے عام آدمی کی فلاح کے لیے کوئی ایک کام کیا ہو۔ کسی ایک عوامی مسئلے پر اس نے ازخود نوٹس لے کر اس مسئلے کو حل کیا۔ کوئی ایک کیس ایسا بتا دیجئے کہ جو اس کے دور میں اس کے سامنے پیش ہوا ہو اور اس نے کوئی ایسی بات کی ہو جو تاریخ میں اہم حوالہ بن سکے۔ کیا اعلی عدلیہ کا بس یہی کام ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں الجھ جائے ؟، فریق بن جائے اور اپنا قیمتی وقت لایعنی سیاسی مقدمات میں برباد کر ڈالے۔ کیا انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھنے والے نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس نے کبھی اس عہدے سے ریٹائر نہیں ہونا ؟، اگر ان کو ایکسٹینشن مل بھی جاتی تو کیا پھر وہ مدت بھی ختم نہ ہوتی۔ کیا قاضی صاحب نے قیامت کی صفیں لپیٹنی تھیں ؟، کیا یہ خود کسی کے آگے جواب دہ نہ تھے ؟، قاضی صاحب 13ماہ تک پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس رہنے کے بعد 25اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے ۔ وہ پاکستان کی واحد عدالتی شخصیت ہیں جن کی تقرری بھی بطور چیف جسٹس ہوئی انہوں نے چیف جسٹس کی ہی حیثیت سے اپنا جوڈیشل کیرئیر ختم کیا ہے۔ قاضی صاحب 2009ء میں بلوچستان کے چیف جسٹس بنے اور پھر 2024ء میں پاکستان کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ قاضی فائز عیسیٰ ایک ہنگامہ خیز سیاسی دور میں چیف جسٹس بنے جب عدلیہ میں تقسیم بھی واضح تھی۔ اسی لیے ان کا عدالتی دور تنازعات سے بھرپور رہا ۔ گزشتہ برس ستمبر میں جب قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تو وکلا میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جج ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر اس وقت بنا تھا جب انہوں نے کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے خود کش حملوں سے متعلق قائم کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے اس واقعے کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ اور پھر ان کے خلاف سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کی وجہ سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی تھی۔ بلوچستان کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے فائز عیسیٰ نے اپنا سارا وقت سیاست کی نذر کر دیا ۔ افتخار چودھری کا لگایا ہوا بوٹا تھے، سو انہی کی طرح قوم کو شدید مایوس کیا۔(Stick holdes) سٹک ہولڈرز نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے نظریہ ضرورت متعارف کرایا تھا مگر اس ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جج ‘‘ سمجھے جانے والے نے نظریہ بلا ضرورت کو فروغ دیا۔ 17جنوری 2019ء کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ممالک اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔ جسے وہ کبھی نہ بھلا سکے۔ نہ اپنے غصے کو دبا سکے۔ ان کا دور احمد فراز کے ایک شعر کی عملی تفسیر تھا:
بڑا منتقم ہے میرا لہو
یہ میرے نسب کی سرشت ہے
اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کی اکثریت نے اس صدارتی ریفرنس کو مسترد کیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی سے روک دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں کورٹ روم نمبر ون میں مقدمات کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے متعلق حکم دیا، تاہم یہ سلسلہ اس وقت رک گیا جب نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں موجود ایک جج نے کہا کہ چونکہ عمران خان اس ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں اور یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، اس لیے اس مقدمے کی کارروائی بھی لائیو دکھائی جائے۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر تین ججز نے اپنے ساتھی جج کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ جسٹس عیسیٰ کے دور میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے متعدد بار کہا گیا کہ چیف جسٹس ان کی جماعت اور عمران خان سے متعلق کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت وکلا کے ایک دھڑے میں پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے مقدمے کے حوالے سے بھی متنازع بنی جس میں سپریم کورٹ نے اپنی حکم میں پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا ۔اپنے اس فیصلے کے برعکس آٹھ فروری کے انتحابات کے بعد جب مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی سماعت ہوئی تو اس میں چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق اس عدالتی فیصلے کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا تھا کہ اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بلے کا نشان الاٹ نہ کیا جائے۔
فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مقدمات میں کمی ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوا اور ان کے دور میں بھی پاکستانی عدلیہ سے متعلق عالمی رینکنگ میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ عہدہ سنبھالا تو اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 56ہزار تھی اور اب جب وہ ریٹائر ہو رہے ہیں تو اس وقت زیر التوا مقدمات کی تعداد 65ہزار ہو گئی ہے۔ وہ آج ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اس عہدے سے مزید چمٹے رہیں مگر اپنی تمام کوششوں کے باوجود وہ ناکام رہے۔ کچھ لوگ تمغے سجا کر خوش ہوتے، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عہدوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اپنے قاضی صاحب کا تعلق پہلی قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔لگتا ہے ان کے کریڈٹ پر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر وہ فخر کریں، قوم عمومی طور پر ان کی رخصتی پر خوش ہے۔