ColumnImtiaz Aasi

بھکاری پن کب ختم ہوگا؟

امتیاز عاصی
پاکستان اور سعودی عرب بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کی دوستی لازم و ملزم ہے۔ ملک پر جب کبھی کوئی آفت پڑی سعودی حکومت نے دل کھول کر ہماری مدد کی ۔ سعودی مملکت کا کوئی حکمران ہو گزرا اس نے پاکستان کے ساتھ دوستی نبھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر ہو یا شمالی علاقہ جات زلزلے میں بے گھر لوگوں کی دل کھول کر مدد کی بے گھر لوگوں کو گھر تعمیر کرا کر دیئے ۔ حال ہی میں سعودی حکومت نے بے گھر افراد کے لئے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے جو پاک سعودی دوستی کا مظہر ہے۔ ہمارا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کہ دوست ملکوں کے ساتھ ہماری مدد میں سعودی عرب نے پہل کی۔ سعودی عرب کیلئے پاکستان کی عسکری خدمات اپنی جگہ جس کی اہم وجہ حرمین شریفن کی حفاظت مسلمانان عالم کی پہلی ترجیح ہے۔ ملک عبدالعزیز سے شاہ سلمان تک جیتنے حکمران ہو گزرے ہیں دونوں ملکوں کی دوستی میں فرق نہیں آیا بدقسمتی سے ہم وطنوں نے حج و عمرہ کی آڑ میں بھیک مانگنے کا جو وتیرہ اختیار کیا سے ریاست پاکستان اور یہاں کے رہنے والوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت کئی ہزار پاکستانی سعودی جیلوں میں بھیک مانگنے اور دیگر الزامات میں بند ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی قونصیلٹ ان پاکستانیوں کی دستاویزات تیار کر رہا ہے جس کے بعد انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکے گا۔ پاکستان سے محنت مزدوری کے لئے جانے والے ہم وطنوں کا سعودی عرب جانے کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا جب شہید شاہ فیصل اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تو حصول روزگار کے لئے پاکستانیوں کو سعودی عرب بھیجنے کو کہا جس کے بعد ابھی تک پاکستانیوں کا حصول ملازمت کے لئے سعودی عرب جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سعودی عرب میں تارکین وطن کے منفی کردار کے باعث جہاں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ملازمت کرتی تھی ان کی جگہ بھارتی شہریوں نے لے لی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانیوں سے کئی لاکھ زیادہ بھارتی ہنر مند سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں۔ کسی بھی ملک میں دوسرے ملک کے شہری جا کر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے تو ایسی صورت حال میں میزبان ملک ان ملکوں کے رہنے والوں کو روزگار دینے سے گریز کرے گا۔ افسوسناک پہلو یہ
ہے بھیک مانگنے والے گروپس کی شکل میں سعودی عرب جاتے ہیں پاکستان سے انہیں بھیجنے والے بعض ٹریولنگ ایجنٹس محض پیسے کمانے کی خاطر بغیر تصدیق کے انہیں سعودی عرب بھیجنے کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورت حال امارات میں ہے وہاں کی حکومت نے پاکستان کے بعض شہروں کے رہنے والوں پر امارات میں آنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ہم وطنوں کا ملکی تشخص کو مجروح کرنے کے باعث پاکستان کے مقابلے میں بھارتی سعودی عرب میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کے باعث پاکستانی ہنر مندوں کی مانگ میں روز بروز کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہمیں یاد ہے جب میں پہلی مرتبہ 1990ء میں حج ڈیوٹی کے لئے سعودی عرب گیا تو ہماری فلائٹ جدہ براستہ داہران تھی۔ دہران کے ہوائی اڈے پر امیگریشن کی تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد جب میں جہاز میں سوار ہونے گا تو امیگریشن عملہ نے مجھے دوبارہ جانچ پڑتال کے لئے جہاز سے نیچے اتار لیا جس کے بعد امیگریشن سٹاف نے ہماری نئی چپل کی اچھی طرح پڑتال کرنے کے بعد جہاز میں سوار ہونے کی اجازت دی ۔1990ء کے بعد مجھے کئی بار حج کرنے کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں آخری مرتبہ 2016ء عمرہ کی سعادت کے لئے برادرم محمد صدیق حیات جو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں کے ہمراہ سعودی عرب گیا اتنے برس گذرنے کے باوجود میں اس واقعہ کو بھول نہیں پایا ہوں۔ کئی برس پہلے تک سعودی حکام عمرہ پر جانے والے ان زائرین کو جو عمرہ کا سیزن ختم ہونے کے باوجود ملازمت کے حصول کے لئے غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں قیام کرتے تھے اپنے طور پر ان کی وطن واپسی کے
انتظامات کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سعودی حکومت نے اپنے خرچ پر غیر قانونی قیام کرنے
والے افراد کو وطن واپس بھیجنے کا سلسلہ بند کر دیا ہے ۔ سعودی عرب سے وطن واپس لانے کے لئے کئی ہزار لوگوں میں سے کثیر تعداد کے پاس واپسی کے ٹکٹ نہیں ہوں گے جنہیں واپس بھیجنے کے لئے حکومت پاکستان کو کروڑوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ بھیک مانگنے والوں سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے جب وہ عمرہ کے لئے درخواست دیں تو مشکوک لوگوں بارے ایف آئی اے کو پوری طرح تحقیق کرنی چاہیے جس کے بعد انہیں عمرہ ویزا کی سہولت ملنی چاہیے۔ وہ افراد جو سعودی عرب جا کر بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں حکومت نے ان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا فیصلہ کرکے احسن اقدام اٹھایا ہے جس سے مستقبل قریب میں وہ کسی دوسرے ملک سفر نہیں کر سکیں گے۔ عام طور پر بھیک مانگنے والوں کا سعودی عرب جانے کا سلسلہ ماہ رجب میں شروع ہو جاتا ہے جس کے بعد وہ حج ختم ہونے تک سعودی عرب میں قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکومت کے حج و عمرہ قوانین میں تبدیلیوں سے غیرقانونی زائرین کا قیام خاصا مشکل ہو گیا ہے تاہم اس کے باوجود بھیک مانگنے والوں کی بڑی تعداد رمضان المبارک سے قبل سعودی عرب پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ سعودی شہری ماہ مقدس میں رکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ تقسیم کرتے ہیں پاکستان کے علاوہ کئی اور ملکوں سے آنے والے پیشہ ور گداگر رمضان المبارک میں سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھکاریوں کا راستہ روکنے کے لئے سخت قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی حکومت آئین اور قانون میں آئے روز تبدیلیاں کرتی ہے بھکاریوں کا سعودی عرب جانا روکنے کے لئے بھی سخت ترین قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دی جا سکیں۔ اس کے ساتھ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے وہ بے روزگار مرد و خواتین خصوصا جنوبی پنجاب اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے غریب عوام کو روزگار کی فراہمی کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بھیک مانگنے کی ضرورت نہ رہے ہمارا ملک بدنامی سے بچا رہے۔

جواب دیں

Back to top button