بھارت: اقلیتوں کا قبرستان
تحریر: کنول زہرا
بھارتی دہشتگردی، بدمعاشی اور تخریب کا ری اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ بھارت کی دراندازی سے پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور کینیڈا کے رہائشی تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔ دنیا کو اب یقینا اس بات پر یقین آگیا ہوگا کہ پاکستان جس بات کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ وہ سو فیصد درست ہے۔
بھارت طویل عرصے سے بین الاقوامی ظلم و تشدد میں مصروف رہا ہے۔ جس کی خبریں اب آنا شروع ہوگئی ہیں۔
بین الاقوامی اشاعتی ادارے دی گارجین کے آرٹیکل کے مطابق بھارت عالمی سطح پر اجرتی قاتلوں کے جتھے میں شامل ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی بین الاقوامی دہشت گردی سے کینیڈا اور امریکا کے رہائشی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بھارت کے لئے شرمندگی کا باعث ہے کہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارتی سفارتکاروں پر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے ہیں مگر واضح ثبوتوں کے باوجود بھارت نے الزامات کو مسترد کیا اور مکمل ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا "سکھ انتہا پسندوں” کو پناہ دے رہا ہے۔ دی گارجین کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی بین الاقوامی مجرمانہ کارروائیوں میں قتل، بھتہ خوری، اور دھمکیاں، خاص طور پر سکھوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ حال ہی میں امریکی عدالت نے بھارتی انٹیلی جنس افسر کو امریکا میں مقیم گرپتونت سنگھ کے قتل کی ناکام سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔ مودی سرکار نے کینیڈا اور امریکا کے ساتھ سکھ رہنماؤں کے قتل کی تحقیقات میں کوئی تعاون نہیں کیا۔ جس کی وجہ ہنداتوا سوچ کی پشت پناہی کرنا ہے۔ دی گارجین نے کہا کہ بھارت کے اقدامات اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کی دوسرے ممالک میں کی گئی کارروائیوں سے مماثلت رکھتے ہیں جس پر بھارتی حکام کا باضابطہ قانونی احتساب ہونا چاہیے۔ جو بات آج برطانوی اخبار کہہ رہا ہے۔ پاکستان یہ بات بارہا کہہ چکا ہے مگر ہماری کسی نے نہیں ماننی آج جب آگ اپنے گھر پہنچی تو دنیا کو سمجھ آئی کہ پاکستان دہشگرد نہیں بلکہ دہشتگردی سے متاثر ملک ہے۔ جس کا سبب بھارت ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی 2021 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی میں 2.1 فی سکھ ہیں اور سکھ مت کینیڈا کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا مذہب ہے۔ بھارت کے بعد کینیڈا میں سب سے زیاد سکھو آباد ہیں جبکہ وہاں کی حکومت میں کئی سکھ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ جس پر بھارت اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔ 1982 میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے اس وقت کے کینیڈین وزیرِ اعظم پیری ٹروڈو( موجودہ وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) کو خالصتان کے حامی گروپس کی سرگرمیوں سے متعلق بھارت کے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔
خالصتان تحریک کے حامیوں نے سکھوں کے الگ وطن کے قیام کے لیے کینیڈا میں ریفرینڈم کیاتھا۔ جس پر کینیڈا اور بھارت کے سفارتی تعلقات بدمزگی کا شکار ہیں۔ رواں برس جون میں کینیڈا نے ایک ایسی پریڈ کی اجازت بھی دی تھی جس میں اندرا گاندھی کے قتل کے مناظر کو ڈرامائی صورت میں اسٹیج کیا گیا تھا۔جس پر بھارت کی وزارتِ خارجہ نے شدید احتجاج اور مذمت کی تھی۔ کینیڈااور بھارت کے سفارتی تعلقات میں اسقدر دوریاں بڑھ گئی ہیں کہ بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے رواں برس جون میں الزام عائد کیا تھا کہ کینیڈا میں ووٹ بینک کی سیاست عروج پر جا پہنچی ہے۔ جس کی وجہ سے خالصتان کی تحریک کی حمایت کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب کینیڈین حکام نے اس تاثر کی تردیر کی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ملک میں فروغ پانے والی ہنداتوا سوچ کی وجہ سے بھارت اور مغربی ممالک میں خالصتان کی تحریک کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سکھوں کے ساتھ بھارتی ستم پر
2024 کے آغاز میں امریکہ اور برطانیہ میں مقیم سکھ برداری نے بھارتی قونصل خانوں کے باہر احتجاج ریکاڈر کرایا تھا۔ سکھوں کے ساتھ بھارتی ظلم نیا نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ 40 سال پرانی ہے۔
بھارت میں سکھوں پر ظلم و جبر کا آغاز جون 1984 میں ہوا۔ یہ ظلم ریاستی سطح پر کیا گیا تھا۔ جسے آپریشن بلیو اسٹار کا نام دیا گیا تھا۔
سِکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرا اور وزیراعظم اندرا گاندھی کے درمیان اچھے تعلقات ہوا کرتے تھے تاہم وقت کے ساتھ وہ بدل گئے اور انہوں نے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ آپریشن بلیو اسٹار کا سبب بنا۔ دراصل بھنڈرا والا کئی برسوں سے سکھوں کی آزادی کے لئے تحریک چلا رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ناراضگی کے بعد وہ اپنے مسلح حامیوں کے ساتھ ‘گولڈن ٹیمپل’ میں روپوشی اختیار کی ہوئی تھی۔
بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ریاستی فوج کو سِکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرا اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ اس طرح آپریشن بلیو اسٹار کا آغاز ہوا۔ جس میں بھارتی فوجیوں نے توپ اور ٹینکوں کے ذریعے سکھ برداری پر قیامت ڈھائی۔
چند روز کی کارروائی میں جرنیل سنگھ بھنڈرا والا اور ان کے متعدد ساتھی مارے گئے۔ سرکاری طور پر اس میں 400 سِکھوں اور 83 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی جبکہ سکھ یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ جس کے اعداد و شامر 5 ہزار سے زائد ہیں۔ سکھوں کی عبادت گاہ "گولڈن ٹمیپل” کی بے حرمتی کی گئی اور ریاستی سطح پر قتل عام کا بازار گرم ہوا۔ جس پر سکھ برداری کے دل آج بھی دکھی ہیں۔
اس واقعے کے چھ ماہ بعد ہی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے سِکھ محافظوں نے انہیں قتل کردیا۔ اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد پورے ملک خصوصاً دہلی میں سکھ مخالف فسادات اور مظاہرے ہوئے جس میں کم از کم تین ہزار سکھوں کی جان لے لی گئی۔ سنہ 2012 میں اس آپریشن کی باز گشت ایک مرتبہ پھر لندن میں اس وقت سُنی گئی جب چند سِکھ نوجوانوں نے بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ برار پر چاقو سے وار کیے تاہم وہ حملہ جان لیوا ثابت نہیں ہوا تھا۔
اس حملے کی وجہ یہ تھی کہ کلدیپ سنگھ برار آپریشن ‘بلیو اسٹار’ کے کمانڈنگ آفیسر رہ چکا ہے۔ کلدیپ سنگھ برار کو آپریشن بلیو اسٹار کا آرکیٹکٹ بھی کہا جاتا ہے۔
ہنداتوا سوچ ایک بار پھر بھارت کو 1984 میں لے کر جا رہی ہے۔ جس میں صرف سکھ ہی نہیں بلکہ ساری اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔