میثاقِ جمہوریت کے ادھورے خواب کی تکمیل
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت ملک و قوم کو لاحق مصائب اور مشکلات کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ ملک و قوم کی خوش حالی کے لیے بڑے فیصلے کیے گئے ہیں۔ محض 6، 7ماہ کے عرصے میں حکومت نے وہ کر دِکھایا ہے جو ماضی میں حکومتیں اپنی پوری پوری مدت اقتدار گزار لینے کے باوجود کرنے سے قاصر تھیں۔ ملک و قوم کی باگ ڈور مدبر، دُوراندیش اور دانش مند قیادت کے سپرد ہے، جس کے فیصلوں کے دُوررس نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ جب پہلے 2022ء میں شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت وجود میں آئی تھی تو اُس وقت ملک پر ڈیفالٹ کی سنگین تلوار لٹک رہی تھی۔ معیشت کا بٹہ بیٹھا ہوا ہے۔ مہنگائی کے مارے غریب عوام شدید نڈھال تھے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی کا سامنا کر رہا تھا۔ ہر شے کے دام آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ اُس وقت سیاست کو قربان کرتے ہوئے اتحادیوں نے ملک بچانے کو ترجیح دی اور ہنگامی بنیادوں پر کچھ بڑے فیصلے کیے۔ مختصر مدت میں ملک وقوم کی بہتری کے لیے کئی راست کوششیں سامنے آئیں۔ مدت اقتدار پوری ہونے کے بعد انوار الحق کاکڑ کی قیادت میں نگراں حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس نے بھی ملک و قوم کے مفاد میں چند بڑے قدم اُٹھائے۔ ڈالر، سونا، چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا، جو اَب تک جاری ہے، اسی طرح برسہا برس سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو باعزت طریقے سے اُن کے ملک واپسی کا قدم اُٹھایا گیا۔ ان دونوں فیصلوں کے ملک و معاشرت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی کے نتیجے میں ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ممکن ہوسکی۔ پھر فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا، قیادت کا تاج ایک بار پھر شہباز شریف کے سر سجا۔ اُنہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی شب و روز محنت اور ریاضت شروع کی۔ کئی ممالک کے دورے کیی۔ زراعت اور آئی ٹی کے شعبے میں ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچانے کا عزم کیا اور اس حوالے سے اقدامات یقینی بنائے۔ کاروبار دوست اقدامات ممکن بنائے گئے۔ درآمدات کو گھٹایا گیا جب کہ برآمدات کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ حکومتی آمدن بڑھانے کے لیے اصلاحات عمل میں لائی گئیں۔ ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ غریب دوست اقدامات کیے گئے۔ گرانی پر قابو پانے کے لیے قدم بڑھائے گئے۔ 6سال کے دوران پہلی بار عوام کی حقیقی اشک شوئی کی گئی۔ مہنگائی میں خاطرخواہ کمی ہوئی اور وہ کافی عرصے بعد سنگل ڈیجیٹ پر آئی۔ معیشت کی درست سمت کا تعین کیا گیا۔ روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ اس کے بعد آئینی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ حکومت اور اتحادیوں کی کاوشیں رنگ لائیں۔ سود ایسی لعنت کے خاتمے سمیت بڑی انقلابی ترمیم دیکھنے میں آئیں، جن کی ہر سُو تعریف کی جارہی ہے۔ حکومتی اور اتحادی جماعتوں کی کاوشوں سے 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد صدر مملکت کے دستخط کے بعد اُن سے متعلق گزٹ نوٹیفکیشن کا اجرا بھی کر دیا گیا۔ اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی نہایت شاندار مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم سے محلاتی سازشوں کا عہد ختم ہوا ہے اور میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہوگیا، آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوریت کے لیے منڈلاتے خطرات ختم ہوگئے ہیں، پارلیمان کے اندر زعما نے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے لیے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے، آئینی ترمیم پارلیمان کی بالادستی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی، ملک کا مستقبل مضبوط اور محفوظ ہوگا، ترمیم سے لاکھوں لوگوں کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی۔ پیر کو قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والی جماعتوں کے سربراہان کی نشستوں پر جاکر ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے اور قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی اعلیٰ مثال ہے۔ آج ایک نیا سورج طلوع اور نئی صبح ہوئی ہے۔ ماضی میں محلاتی سازشوں کے ذریعے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجے جانے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اس آئینی ترمیم سے انصاف کا حصول آسان اور عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچا ہے، کسی منحرف رکن نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا، ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، طے ہوگیا کہ پارلیمان بالادست ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر تحریک انصاف بھی اس ترمیم میں شامل ہوتی تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے سپیکر اور ان کے سٹاف کا بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ حکومت اور اتحادیوں نے سیاسی تدبر، دُور اندیشی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا قدم اُٹھایا ہے، جس کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ ملک و قوم تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہیں۔ اس کے ثمرات آئندہ چند سال میں ظاہر ہوں گے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اُنہیں درست خطوط پر استعمال کرنے سے صورت حال مزید موافق بنائی جاسکتی ہے۔
جان بچانے والی ادویہ کی قلت!
پاکستان میں جان بچانے والی ادویہ کی مناسب قیمت پر دستیابی کے حوالے سے
صورت حال عرصۂ دراز سے ناگفتہ بہ ہے۔ افسوس دُنیا بھر میں جان بچانے والی ادویہ کے نرخ انتہائی مناسب ہوتے ہیں جب کہ وطن عزیز میں ان دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ اگر کسی گھر میں کوئی مریض باقاعدگی سے ادویہ کا استعمال کرتا ہے تو گھر کی ماہانہ آمدن کا بڑا حصّہ اس کی نذر ہوجاتا ہے۔ موجودہ گرانی کی صورت حال میں ملک میں بہت سے غریب گھرانے ایسے بھی ہیں، جن کے بزرگوں نی ادویہ لینی چھوڑ دی ہیں اور موت کے انتظار میں ہیں، کیونکہ وہ ادویہ استعمال کر سکتے یا اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتے ہیں، ایسے میں انہوں نے خود کے علاج کو تج دیا ہے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کو فوقیت دی ہے۔ افسوس یہاں جان بچانے والی کی خرید و فروخت کے حوالے سی مافیاز نے بڑی تباہ کاریاں مچائی ہیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں جعلی، غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویہ کی فروخت کے حوالے سے اطلاعات پہلے ہی سامنے آتی رہی ہیں۔ باوجود کوششوں کے ان کی فروخت روکی جا سکی نہ اس میں ملوث عناصر کا قلع قمع کیا جاسکا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں جان بچانے والی ادویہ کی شدید قلت کی صورت حال جنم لیتی ہے اور وہاں کے لیے زیست کسی کٹھن امتحان میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس وقت سندھ اور کراچی کے شہری جان بچانے والی ادویہ کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں جان بچانے والی ادویہ کی شدید قلت ہے۔ گردوں کے امراض، ہیپاٹائٹس اے، روبیلا، خسرہ اور ممپس کی ویکسین ناپید ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیٹنس کے علاج کے لیے ٹیٹنس امیونو گلوبلین اور ریبیز سے بچائو کے لیے اینٹی ریبیز امیونو گلوبلین بھی ناپید ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیٹنس امیونو گلوبلین ٹیٹنس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، بروقت ویکسی نیشن نہ ہونے سے تشنج 30سے 40فیصد کیسز میں موت کا سبب بھی بنتا ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ اینٹی ریبیز امیونو گلوبلین کو ریبیز ویکسی نیشن کے ساتھ دینا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری جانب امپورٹرز کا کہنا ہے کہ قیمت کے حوالے سے ڈریپ کو لکھ دیا ہے، اگر قیمتیں مقرر نہیں کی جائیںگی تو ادویہ امپورٹ نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن توقیر الحق نے بتایا کہ ادویہ ساز کمپنیاں مقامی طور پر بھی کچھ ادویہ بنارہی ہیں، باہر سے منگوائی جانے والی ادویہ کا مسئلہ بھی جلد حل ہوجائے گا، سرکاری اسپتالوں میں جان بچانے والی ادویہ کی کچھ ماہ سے کمی ہے۔ آخر اتنی اہم جان بچانے والی ادویہ کی قلت کیونکر ہوئی۔ دوائوں کی بروقت اور بلاتعطل ترسیل کا سلسلہ کیوں رُکا۔ اس میں کون عناصر ملوث ہیں۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے شفاف بنیادوں پر تحقیقات کرائی جائے اور ذمے داران کا تعین کرکے اُنہیں نشانِ عبرت بنایا جائے۔ دوسری جانب ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں کہ آئندہ ملک کے کسی بھی گوشے میں جان بچانے والی ادویہ کی قلت کی صورت حال پیدا نہ ہوسکے۔