Columnمحمد مبشر انوار

مسدود ہوتے مواقع

محمڈ مبشر انوار (ریاض)
پاکستان معرض وجود میں آتے ہی شدید مشکلات اورمسابقت کا شکار ہو چکا تھا، کہ ایک طرف بعد از آزادی بھارت نے اس کے حقوق ادا کرنے میں دانستہ تاخیر کی تو دوسری جانب بھارت کی یہ خوش گمانی تھی کہ نومولود ریاست وسائل کے بغیر زیادہ عرصہ نہیں گزار سکے گی اور جلد ہی گھٹنے ٹیک دے گی۔ تاہم بھارت کی یہ خوش گمانی، خوش گمانی ہی رہی کہ تحریک پاکستان کو کامیاب کروانے والے سیاسی کارکنان اور عوام نے جس جذبہ کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھا جا چکا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے نقوش کو مٹا نہیں سکتی۔ اولوالعزمی اور خلوص کی ایسی داستان نومولود ریاست نے رقم کی کہ جس کی شہادت تاریخ ہمیشہ دیتی رہے گی اور یہی سبق درحقیقت اسلاف نے آنے والی قوم کے سامنے رکھا تھا کہ مسائل و مشکلات کبھی عزم و ہمت کو شکست نہیں دے سکتے بشرطیکہ جذبے اور لگن سچی ہو تو ہر مسئلے اور مشکل کو بآسانی عبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب حکمرانوں کے نزدیک، نئی ریاست کی ترقی و خوشحالی مقدم تھی اور تمام تر پالیسیاں ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی، ان پر عمل درآمد ملکی مفادات کے پیش نظر ہوتا اور نتیجہ یہ تھا کہ پوری دنیا میں پاکستانی مصنوعات کی طلب تھی اور پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں بھی قدم بقدم ترقی کے زینے طے کر رہا تھا۔ تسلیم کہ اس وقت بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں
مسلسل ریشہ دوانیاں اور مھینچا تانی جاری تھی لیکن یہ ریشہ دوانیاں اور کھینچا تانیاں فقط اقتدار کی حد تک تھی لیکن جہاں معاملہ ملکی مفادات کا ہوتا، ملکی مفاد کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی اور ملکی مفادات کو مقدم رکھا جاتا، اس میں سیاسی و دور آمریت کی کوئی خاص تخصیص نظر نہیں آتی۔ تاہم جنرل ایوب کے دور حکومت میں ایک طرف صنعتی ترقی اپنے انتہائی عروج کو چھوتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف محنت کشوں کے حقوق بری طرح سلب ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو بہرطور صنعتی انقلاب یا ترقی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت صنعتکاروں کی ہوس زر نے انہیں اپنے مفادات کا غلام بنا رکھا تھا اور وہ منافع کے نام پر حاصل ہونے والے سرمایہ کو ذاتی تجوریوں میں سمیٹنے پر مائل نظر آتے تھے جبکہ ان کی صنعتوں کو چلانے والے محنت کشوں کی حالت انتہائی پتلی نظر آتی ہے۔ اس تفاوت کو ختم کرنے کی بجائے، ایوب حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور سوشلسٹ نظریات کے عروج نے، پاکستان میں ایسی قیادت کو جنم دیا، جس نے اس صنعتی ترقی کی چولیں ہلا کر رکھ دی، اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ محنت کش کو اس کے حقوق ملنے چاہئے تھے لیکن اس کی قیمت صنعت کا خاتمہ کسی صورت بھی نہیں ہونا
چاہئے تھا۔ اصولا ایک متوازن پالیسی اختیار کی جانی چاہئے تھے، کہ جس میں نہ صرف صنعتکار کی رغبت اور دلچسپی قائم رہتی بلکہ وہ مزید سرمایہ کاری کی طرف راغب ہو کر ملازمتوں کے مزید مواقع پیدا کرتا لیکن سوشلزم کے دلدادہ بھٹو نے عوامی انقلاب کے نام پر ملک میں صنعتی ترقی کے سامنے سوشلزم کا بند باندھ دیا ۔ نتیجہ یہ کہ پاکستانی صنعتکاروں نے پاکستان سے ہجرت کرنے میں عافیت جانی، بہرکیف تصویر کا یہ ایک رخ ہے تو دوسری طرف ظلم یہ ہوا کہ مقامی ہنر مندوں کی تعداد میں مسلسل کمی آتی گئی اور آج بدقسمتی سے صورتحال یہ ہے کہ مقامی ہنرمند تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے کہ اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کساد بازاری کے اس دور میں پیداواری عمل میں شریک ہو سکے۔
بعد ازاں پاکستان جس طرح مختلف جنگوں میں بطور فروٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرتا رہا، اس نے
حکمرانوں کو مقامی صنعت کی طرف سے مکمل طور پر غافل کر دیا کہ ان جنگوں میں شریک ہو کر پاکستان کو بغیر مصنوعات کی تیاری کے، فوجی خدمات کے عوض آمدن ہو رہی تھی۔ تاہم جنگیں ہمیشہ کے لئے نہیں رہتی اور نہ ہی کسی بھی فوجی خدمت کی ضرورت، لہذا جیسے ہی عالمی طاقت کی ضرورت ختم ہوئی، پاکستان کی آمدن کے ذرائع بھی ختم ہو گئے لیکن اس دوران ملکی معیشت کی سانسیں بھی آخری دم پر نظر آئی، نتیجہ بے تحاشہ قرض ریاست پاکستان پر لاد دیا گیا۔ بدقسمتی سے اس قرض کو غیر پیداواری منصوبوں میں اڑا دیا گیا کہ جس میں صرف ’’ شو بازیاں‘‘ ہی دکھائی دیتی ہیں جبکہ پس پردہ ان منصوبوں سے جو کمیشن کھائے گئے، وہ الگ ہیں، لیکن اس کے نتیجہ میں ریاست پاکستان کی معاشی حیثیت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ البتہ نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں صنعتی انقلاب لانے کی جو کوشش کی گئی، اس سے انکار ممکن نہیں لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث پالیسیوں میں عدم تسلسل کے باعث اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے اور مقتدرہ کیا ایک صنعتکار کو وزیراعظم بنانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا۔ البتہ اس تجربہ کے دوران ہی نواز شریف اور خاندان کو یہ بات ضرور سمجھ آ گئی کہ جو موقع انہیں میسر آیا ہے، اس سے وہ اور ان کا خاندان کس طرح فیض یاب ہو سکتا ہے اور آج اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے، اس کے متعلق حقائق دہرانے کی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف بھٹو کے سوشلزم اقدامات کے باعث جہاں ملکی صنعت ٹھپ ہوئی، وہیں متبادل کے طور پر مشرق وسطیٰ میں ملازمتوں کے وسیع مواقع پاکستانیوں کو میسر آئے، جس سے بھٹو نے اپنی سحر انگیز شخصیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستانی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو مشرق وسطیٰ میں محنت مزدوری کے لئے بھیجا۔ ان تارکین وطن نے، اپنی محنت، لگن اور جذبہ سے مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے دل جیت کر، پاکستان کے لئے زرمبادلہ بھیج کر ملکی معیشت کی رگوں میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے مسلسل آکسیجن فراہم جاری رکھی۔ حالات کیسے بھی رہے ہوں، تارکین وطن کی ترسیلات زر میں کبھی نہ رکاوٹ آئی اور نہ ان میں کوئی کمی ہوئی، خواہ عمران خان نے تارکین وطن سے ترسیلات زر نہ بھیجنے کی درخواست ہی کیوں نہ کی ہو۔ البتہ ملکی معیشت فقط تارکین وطن کی ترسیلات زر سے نہیں چل سکتی تاوقتیکہ اس کا صنعتی پہیہ رواں دواں نہ ہو،اس کی درآمدات، برآمدات سے کم نہ ہوں اور ملکی معیشت کو بجٹ خسارے کا سامنا نہ ہو۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستانی برآمدات کا حجم مسلسل گرتا رہا جبکہ درآمدات کا حجم مسلسل بڑھتے رہنے سے بجٹ خسارہ بھی بڑھتا رہا، نتیجہ یہ کہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے منطقی اقدامات کی بجائے غیر منطقی اقدامات اٹھائے گئے اور آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم اپنے غیر ملکی دوروں میں مسکین شکل بنا کر، ایک حقیقی بھکاری کی اداکاری کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مشرق وسطی کے حکمرانوں سے التجائیہ کہتے ہیں کہ ’’ میں یہاں مانگنے نہیں آیا لیکن مجبوری ہے‘‘، ایک وزیراعظم کا یہ کہنا، اس کے عوام پر کیا اثر چھوڑتا ہے، اس کا اظہار بیرون پاکستانیوں کی حرکات سے لگایا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب جیسے ملک میں، پاکستانیوں کی کثیر تعداد رمضان و حج کے دوران، حرمین میں بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے، جو باقاعدہ منظم گروہوں کی صورت یہاں وارد ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے، عازمین حج و زائرین سے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی حکومت جو پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنے بھائی تصور کرتی رہی ہے، ان حرکتوں سے سخت نالاں ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے، ایسے افراد کو پکڑتے بھی ہیں اور ان کو بعد از سزا ملک بدر بھی کرتے ہیں لیکن ان کو بھیجنے والوں کے خلاف وہ بذات خود کارروائی کرنے سے قاصر ہیں، ماسوائے یہ کہ وہ ارباب اختیار کو اس کے متعلق آگاہ کریں اور اس کے سدباب کی توقع رکھیں، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائے ۔
حکومت پاکستان اپنے تئیں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی کوششوں تو کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن بیرونی سرمایہ کاروں کا رویہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا پاکستانی سرمایہ کاروں کا، کہ پاکستانی سرمایہ کا اپنا سرمایہ بیرون ملک ہے جبکہ وہ صرف حکمرانی کرنے پاکستان نظر آتے ہیں لہذا بیرونی سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد تو ہوتی ہے لیکن کہیں بھی ’’ سرمایہ کاری‘] نظر نہیں آ رہی۔ بیرون ملک معاش کے مواقعوں پر نظر دوڑائیں تو کویت نے ایک عرصہ سے پاکستانیوں کے ویزے بند کر رکھے ہیں اور کسی بھی صورت پاکستانیوں کے لئے وہاں ملازمت کا حصول ممکن نہیں رہا، سعودی عرب وژن 2030کے مطابق ماہرین کو ہی ملازمتیں فراہم کر رہا ہے اور درمیانی درجے کی ملازمتوں پر سعودی شہریوں کو ترجیح دی جا رہی ہے، جبکہ یو اے ای کی جانب سے جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں، وہ بھی انتہائی تشویشناک ہیں ۔ ایک دوست نے میسج بھیجا ہے کہ یو اے ای نے غیر علانیہ پاکستانیوں پر ملازمتوں کا حصول بند کر دیا ہے اور اس کی وجوہات انتہائی شرمناک ہیں کہ ایک طرف پاکستانیوں کا رویہ، دوران ملازمت ہیرا پھیری اور سب سے بڑھ کر بھکاریوں کی صورت ان ممالک میں رہتے ہوئے، ان کا تاثر خراب کرنا ہے۔ مشرق وسطی میں افرادی قوت کی بڑی منڈیوں میں سے ایک سعودی عرب ہے تو دوسری یو اے ای ہے کہ جہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رزق کے حصول میں سرگرداں ہے، تاہم ہمارے حکمرانوں کے رویوں، غلط پالیسیوں اور عاقبت نااندیشی نے، ان ممالک میں ذریعہ معاش کے مواقع مزید مسدود کر دئیے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button