ColumnImtiaz Aasi

معتوب جیل افسر کے خلاف مقدمہ

امتیاز عاصی
کبھی کبھی طویل اسیری کا ذہن میں آتا ہے تو یقین نہیں آتا جیل کے شب و روز کیسے گزرے۔ جیل افسران اور ملازمین بارے عام خیال ہے قیدیوں سے زور زبردستی مبینہ طور پر رشوت وصول کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قیدی اور حوالاتی اتنے بھولے نہیں ہوتے جو بغیر کسی مطلب جیل والوں کو رشوت دیں۔ انگریز کے بنائے ہوئے جیل مینوئل پر شدومد سے عمل ہو تو قیدیوں کو نانی یاد آجائے مگر ہوتا یوں ہے جیل ملازمین کچھ دو اور کچھ لو پالیسی کے تحت قیدیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ایک محدود قطعہ اراضی میں رہنے والوں کو ماسوائے نیلے آسمان کے کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی جس کی بنا وہ بہت سی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سزائے موت کے قیدی بالعموم عارضہ قلب، ٹی بی اور سکن کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کئی عشرے قبل جیلوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو قیدیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا اب تو جیلوں میں پانی کے بور کی سہولت سے کم از کم قیدیوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ اگلے روز اخبارات میں اڈیالہ جیل کے معتوب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک محمد اکرم کے بارے اینٹی کرپشن میں مقدمہ کے اندراج کی خبر نظر سے گزری تو حیرت ہوئی۔ ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ کے منشیات کے ایک حوالاتی نے اکرم ملک کے خلاف رشوت کی شکایت کی ہے جس پر اس کے خلاف رشوت کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اس کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ عجیب تماشا ہے اینٹی کرپشن والوں نے شکایات گزار سے اتنا نہیں پوچھا وہ دو سال تک کیوں خاموش رہا ہے اور اب اسے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو رشوت دینے کی شکایت کا خیال آیا ہے۔ گو وقتی طور پر اکرم ملک کو اس مقدمہ میں پریشانی کا سامنا ہے تاہم قانونی طور پر شکایت گزار کا مقدمہ بہت کمزور ہے۔ ملک اکرم دو ماہ سے گھر سے غائب تھا اس کی اہلیہ نی اس کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرایا ہوا تھا جس پر ہائی کورٹ نے متعلقہ اداروں سے باز پرس کرنے کے بعد آئی جی جیل خانہ کو طلب کیا تھا جنہوں نے عدالت کو بتایا محمد اکرم کو ایک پرانی محکمانہ انکوائری میں ملازمت سے برطرف کیا گیا
ہے۔ سوال ہے محکمہ جیل خانہ کو ایک ایسے وقت جب
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اپنے گھر سے لاپتہ تھا پرانی انکوائری کھولنے کا خیال کیوں آیا؟ جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پر سابق وزیراعظم عمران خان کی سہولت کاری کا الزام ہے۔ ملک اکرم کی گمشدگی کے چند روز بعد محکمہ جیل خانہ جات نے جس انداز سے اس کی اہل خانہ سے سرکاری مکان خالی کرایا ہے قابل افسوس ہے۔ ملک اکرم اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد گزشتہ کئی برسوں سے راولپنڈی جیل میں تعینات تھا، درمیان میں چند ماہ کیلئے کسی اور جیل میں تبادلہ ہوا تو مہربان افسران نے اس دوبارہ راولپنڈی جیل میں لگا دیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے محکمہ جیل خانہ جات میں افسران اور ملازمین کے تبادلوں کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے ۔ جس کی جتنی سفارش اور ۔۔۔۔ ہوگی وہ من پسند پوسٹنگ لینے کا اہل قرار پاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک روز ایک قریبی دوست نے فون پر کہا اس کا بیٹا وکیل ہے وہ عمران خان سے ملنے کا اشتیاق رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے ملک اکرم کو فون کیا اور اسے ملاقات کیلئے کہا تو اس کا جواب تھا بھائی جی اے ساڈے وس وچ نہیں۔ جس کے بعد میں اپنے دوست کو بتا دیا ڈپٹی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہی ایک طرف ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی گمشدگی کا مقدمہ چل رہا ہے، دوسری طرف اینٹی کرپشن نے اسے گرفتار رکھا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت اکرم ملک کے خلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ کا اندراج ہوا ہو تاکہ اس کی گمشدگی کو کور دیا جا سکے؟ دراصل جس ملک میں آئین اور قانون کا فقدان ہو وہاں ایسے ہی لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے کوئی خاطر خواہ معلومات سامنے نہ آئیں تو اسے گھر کے قریب ویرانے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہمیں تو
دنیا کی بے ثباتی پر افسوس ہو تا ہے یہ وہی ملک اکرم تھا جسے عمران خان کے دور میں راولپنڈی سے کسی دوسری جیل میں بدلا تو اگلے روز اس کا تبادلہ کینسل ہوگیا اور وہ اپنی پرانی سیٹ پر واپس آگیا تھا۔ ملک اکرم جو بعض اعلیٰ افسران کو بہت زیادہ خوش رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اب بے یار و مددگار ہے۔ آج وہی لوگ جن کا تعلق اس کے مہربانوں میں ہوتا تھا اس سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ قارئین! یقین کیجئے ہماری ملک اکرم سے یاد اللہ چند سالوں پر محیط ہے۔ ہمیں تو افسوس محکمہ جیل خانہ جات کی بے حسی پر ہے۔ حق تعالیٰ کی ذات جب کسی کی مدد کرتی ہے اس کے لئے راستے بھی معین کر دیتی ہے۔ محکمہ جیل خانہ جات نے ایسے وقت میں اسے شوکاز نوٹس بھیجا جب وہ گھر سے لاپتہ تھا اور اس کی گمشدگی کا مقدمہ پولیس نے درج کر رکھا تھا۔ قانونی طور پر کسی شہری کو بغیر سنے سزا نہیں دی جاسکتی ملک کا آئین اس کا تقاضا کرتا ہے Nobody should be condmned unheard. لہذا جب کبھی اکرم ملک کا مقدمہ عدالت میں جائے گا اسے ملازمت پر بحال کرنا پڑے گا۔ اینٹی کرپشن کے مقدمہ کی قانونی طور پر کوئی وقعت نہیں مدعی مقدمہ کے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوگا اس نے رشوت کے مقدمہ کے اندراج میں دو سال کیوں انتظار کیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی شافی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے والوں کو اپنی منصب کی فکر ضرور ہونی چاہیے اس کے ساتھ آخرت میں جواب دہی کا خیال ذہن میں رکھنا چاہیے وہ دنیا میں کسی کے ساتھ زیادتی تو کر سکتے ہیں روز آخرت انہیں ہر چیز کا حساب دینا ہوگا خواہ کوئی بڑے سے بڑا کیوں نہ ہو۔ یہ علیحدہ بات ہے معتوب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے دوران ملازمت کسی سے کوئی زیادتی کی ہو یا کسی کی دل آزاری کا مرتکب ہوا ہو۔ بہرکیف کسی بھی منصب پر کام کرنے والوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران فرعونیت سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

جواب دیں

Back to top button