Column

چار شادیاں کیجیے

رفیع صحرائی
شادی ایک مقدس فریضہ ہے۔ اتنا مقدس کہ مرد اس کی تقدیس کے عمل کو بار بار دہرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت ایک ہی مرد ( خاوند) سے جو توقعات رکھتی ہے مرد ہر خاتون سے وہی توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ ان کے باہمی اتفاق سے ہی یہ گاڑی رواں دواں رہ سکتی ہے مگر دو پہیوں والی گاڑی تو سائیکل یا موٹر سائیکل ہی ہو سکتی ہے۔ اور سائیکل کو گاڑی کہنا گاڑی کی توہین کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ دو پہیوں والی ’’ گاڑی‘‘ چلتے ہوئے اکثر ڈانوا ڈول ہی دیکھی گئی ہے کیونکہ اس کا ایک ٹائر تو سائیکل کا ہی ہوتا ہے مگر دوسرا ٹائر ٹریکٹر کا لگا کر اس گاڑی کو روانی کے ساتھ چلنے کی دعائیں دی جاتی ہیں۔ حالانکہ دعائوں کے سہارے اگر گاڑیاں چلتی ہوتیں تو مستریوں کا کام ہی ٹھپ ہو جاتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مستریوں کا کام روز بروز عروج کی طرف گامزن ہے۔ میاں بیوی کی چلتی گاڑی میں اگر خلل آ جائے تو روحانی مستریوں یعنی تعویز گنڈا کرنے والوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ان مستریوں میں اکثریت روحانیت میں اناڑی مگر باتوں کی کھلاڑی ہوتی ہے اور وہ لوگ صحیح معنوں میں اپنی ’’ زبان کا کھٹیا‘‘ کھاتے ہیں۔ یعنی اپنی روزی کا کنواں اپنی زبان سے کھودتے ہیں۔ میرا دوست ملک شکیل علوی اکثر کہا کرتا ہے کہ دنیا میں جب تک بے وقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکے نہیں رہ سکتے۔ اس کا اشارہ بھی غالباً ہمارے ہاں کی خواتین کی طرف ہوتا ہے جو اپنے مردوں کی خون پسینے کی کمائی ان جعلی عاملوں پر بے دریغ لُٹا کر اپنے خاوند کو ’’ غلام‘‘ بنانے کے تعویذ لیتی ہیں۔ گویا انہیں ایک آزاد بادشاہ کی ملکہ بننے کی نسبت ایک غلام کی جورو بننا زیادہ پسند ہوتا ہے۔ اسی شوق میں وہ نقلی عاملوں اور جعلی پیروں کے خزانے بھرتی ہیں۔
ویسے ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عورت اپنے میاں کو ’’ قابو‘‘ میں رکھنے کی خواہش کے حوالے سے حق بجانب بھی ہے۔ آپ کسی عورت کی صرف بیس سالہ ازدواجی زندگی پر ہی غور فرما لیں۔
ایک بیوی بیس سال میں تقریباً 365من آٹا گوندھتی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ روٹیاں اور 200من چاول پکاتی ہے۔ 300من سبزی اور گوشت وغیرہ پکاتی ہے۔ روزانہ 10مرلے پر جھاڑو پوچا یعنی کل 20سال میں 2138.2مربع کلومیٹر پر جھاڑو پوچا کرتی ہے۔ تقریباً 40ہزار جوڑے کپڑے دھوتی ہے اور استری کرتی ہے۔ مہمانوں اور آنے جانے والوں کی تواضع اس کے علاوہ ہے۔
عورت بچے پیدا کرتی ہے اور ان کی مفت کی نوکرانی بن کر اپنے خاوند کے لاکھوں روپے کی بچت کرتی ہے۔ اگر خاوند یا بچے بیمار ہو جائیں تو خود تھکن سے چور ہونے کے باوجود ان کے سر اور ٹانگیں دباتی ہے۔ بچوں کے سر کی مالش کرتی ہے، انہیں نہلاتی دُھلاتی ہے۔ بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی ہے، ان کی واپسی پر کھانا تیار کر کے رکھتی ہے۔ خاوند کو سُکھ اور آرام پہنچانے کی خاطر اپنا سکون برباد کر لیتی ہے، اپنا آرام تیاگ دیتی ہے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد اگر اس کا خاوند اس کی دسترس یا ’’ دست بُرد‘‘ سے بچنے کی کوشش کرے تو وہ عورت یہ خواہش رکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس کا خاوند ’’ نوکر ووہٹی دا‘‘ بن کر رہے۔ رن مرید صرف ایک اصطلاح ہی نہیں رہی بلکہ ہمارے ایک بہت بڑے سیاسی رہنما نے جب سے سرِعام اپنی زوجہ محترمہ کو ’’ مرشد پاک‘‘ کہنا شروع کیا ہے اس کے سیاسی مقلدین نے بھی اس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے’’ رن مریدی‘‘ کے مقدس رشتے کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
دیکھا جائے تو بیوی کی پُر مشقت اور آلام سے بھرپور زندگی کا اوپر جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ مرد کی ظالمانہ سوچ کا عکاس ہے جس نے بیچاری عورت کو ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ بیوی اس بے تحاشہ مشقت میں ریلیف کی حق دار ہے۔
ذرا سوچیں! عورت بھی انسان ہے۔ احساس کریں اس کا بھی۔ آخر وہ بھی کسی کی بیٹی ہے۔ اسے بھی آرام و سکون کی ضرورت ہے۔ ذرا غور کریں! یہ کام جو وہ اکیلی کر کر کے ہلکان ہو جاتی ہے اگر یہی کام دو بیویاں کریں تو کتنی آسانی ہو جائے۔ اور اگر چار بیویاں کریں تو سوچیں روزمرہ کے کام آپس میں بانٹ کر کرنے کی وجہ سے ان کی زندگی کتنی سہل ہو جائے گی۔
ویسے بھی دو پہیوں والی سائیکل کی بجائے چار پہیوں والی گاڑی کی طرف ترقی کا سفر کرنا کون نہیں چاہتا؟ البتہ ایک خطرہ موجود ہے کہ کہیں چار بیویاں چار پہیے بن کر گاڑی کو چلا لیں اور خاوند بیچارہ سٹپنی بن کر گاڑی کی ڈگی میں ہی پڑا رہ جائے۔
بہرحال قابل غور تجویز ہے بس عمل کریں اور اپنی شریک حیات کی زندگی آسان سے آسان تر بنائیں۔ ہمارا کام تو معقول اور نیک مشورہ دینا تھا۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔

جواب دیں

Back to top button