آئینی ترمیم پہ سب کو کھڑا ہونا پڑے گا، کون کہہ رہا ہے؟

راجہ شاہد رشید
اس کائنات و زمین پر اس سے بڑھ کر جہالت اور حماقت کوئی نہیں کہ سوائے پیغمبروں کے، پاک ہستیوں کے کوئی انسان خواہ مخواہ ہی خود کو عقل کُل سمجھنے لگے بلکہ دوسروں کو بھی یہ بتلانے، جتلانے، سمجھانے اور منوانے لگے کہ بس میں ہی ایک عقل کُل ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم و جہالت و نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ سماج کی ایک اکثریت کسی عقل کے اندھے کو عقل کُل جاننا اور ماننا شروع ہو جائے اور اس کے ارشادات کی روشنی میں چلنے کا چلن بھی بنا ڈالے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک طویل دھرنے کے دوران جس کسی بھی صحافی یا نیم صحافی نے کسی کاغذ کے ٹکڑے پر جو کچھ بھی لکھ کر دے دیا اسے من و عن مان لیا اور بیان بھی کر دیا اور لگا دئیے ایسے ایسے الزامات بھی جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، پھر جب اس ’’ عقل کُل‘‘ سے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار برادرم و محترم حامد میر جی نے اپنے پروگرام ٹیبل ٹاک میں پوچھ لیا کہ یہ جو آپ کی پینتیس پنکچر جیسی ٹرمز ہیں پلیز اس ضمن میں آپ کچھ وضاحت فرمانا پسند فرمائیں گے کیا۔؟ جواباً فرمانے لگے کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا لیکن اس کے باوجود بھی عقل کُل ماننے والے باز نہیں آئے حتی کہ موصوف عقل کُل نے بذات خود مان بھی لیا اور یہ اعلان بھی کر دیا کہ جی ہاں میں نے توشہ خانہ کی گھڑی بیچی ہے بالکل بیچی ہے، میری گھڑی میری مرضی مگر پیروکاروں کو اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑا ’’ انصافین‘‘ ڈٹے رہے ہٹے نہیں اور بدلے بالکل بھی نہیں ، شاید انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔ پرانی بات ہے کہ ان عقلمندوں نے ایکس پہ یعنی ٹویٹر پہ توبہ توبہ، کپتان چپل اور مولانا فضل الرحمٰن کی تصویر ڈال کر ان کے مابین مقابلہ کرایا تھا ، کپتان چپل کے اس قدر باجے بجائے جیسے پوجا کی جا رہی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کو حسب عادت گالیوں کے ترانے اور نذرانے پیش کیے جا رہے تھے، میں نے کمنٹ میں لکھا کہ صد افسوس و ماتم کے آپ جوتوں کا تقابل ایک انسان سے کر رہے ہو تو پھر یہ مجھ پہ بھی تنقید کرتے رہے جو وتیرہ ہے ان کا ۔ ان کی سوچیں میں نہ مانو جیسی ہیں ، چیف جسٹس آف پاکستان کو آخر یہ کیوں کہنا پڑا کہ ’’ سوشل میڈیا پر لائکس لینے کے لیے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے‘‘، مجھے ان جمہوریت پسندوں کی یہ سوچ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ سیاستدان ہو کر سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر بات تک نہیں کر سکتے اور اعلانیہ اداروں
کو دعوت دے رہے ہیں کہ آپ بلائیں اور ہم سے مذاکرات تو کریں پلیز آپ ہم سے کوئی بات تو کریں ۔ ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی خود ہی دعوت دے کر بھلا کیسے بڑا لیڈر اور کوئی فکری و جمہوری رہنما کہلا سکتا ہے ۔ جناب عمر ایوب کے دادا حضور سابق صدر و جنرل مرحوم ایوب خان نے مولانا مودودی ؒ سے پوچھا کہ ’ آج تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ آخر سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے۔؟‘‘۔ مولانا مودودی ؒ نے برملا جواب دیا کہ’ یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے نا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ آخر فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘۔ جنرل ایوب خان خاموش رہ گئے اور پوری محفل زعفران زار بن گئی ۔ اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں تحریک انصاف کی غیر حاضری نہ صرف عوام کو بلکہ خاص و عام تمام کو انتہائی نامناسب محسوس ہوئی ہے ، پی ٹی آئی اپنے اس رویے کا قابل قبول جواز شاید کبھی بھی پیش نہیں کر پائے گی ، سبھی جماعتیں اور بالخصوص تحریک انصاف کی حلیف جماعتیں اپنے اتحادیوں کی اس عدم شرکت پر حیرت زدہ ہیں لیکن میں حیرت زدہ نہیں ہوں کیونکہ عقلِ کُل جو ہوئے۔
محسن بھوپالی کے الفاظ میں
وہ عقل کُل تھا بھلا کس کی مانتا محسن
خیال خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا
فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں ان کے کسی ایک بھی نابالغ اور بے عقل بندے کو شرکت کی توفیق نہ ہوئی ، اس سے لگتا یہ ہے کہ شاید تحریک انصاف کے سارے ہی اہل عقل اپنے کپتان جی پردھان منتری کی مانند عقل کُل بنے بیٹھے ہیں ۔ ن لیگ کے مقابلے میں میرا ووٹ اور سپورٹ ہمیشہ ہی PTIکے ساتھ رہی اور شاید رہے گی بھی مگر مجھے اس بات کا دلی دکھ ہے اور رہے گا بھی کہ یہ اس قومی کانفرنس میں کیوں نہیں گئے کیونکہ میری رائے میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے سے پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہی نہ ہونا کسی طور پہ بھی مناسب عمل کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔ ہم اہل پاکستان کیا کریں ، کس کس کو روئیں ، مشکل تو یہ بنی ہوئی ہے کہ ہمیں دوسری جانب بھی تو کوئی امید نظر نہیں آتی کوئی روشنی نظر نہیں آتی ، چہار سو مایوسیاں، محرومیاں اور تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں کس کو گلے لگائیں ہم اگر پکڑیں تو پکڑیں کس کو اور اگر چھوڑیں تو چھوڑیں کس کو کیونکہ حکومت سب کو اور سب کچھ فتح کرنے کے درپے ہے ۔ یہ تجربہ کار حکمران آئین و قانون و عدالتیں اپنی انگلیوں کے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں اور سب کچھ اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں ، ان بادشاہ بھائیوں کا بس چلے تو ہر چیز کو اپنے پاں تلے روند ڈالیں گے ، ان بے حس اور ظالم شہنشاہوں کی یہ خواہش و کوشش ہے کہ ہر چیز کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ۔ آئینی ترمیم کے ضمن میں معروف اینکر پرسن برادرم منصور علی خان فرماتے ہیں کہ ’ آئینی ترمیم پر نون لیگ اور خصوصاً پیپلز پارٹی کا بھی دل نہیں چاہ رہا مگر پاکستان کے نظام میں کوئی ہے جو کہہ رہا ہے کہ آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا‘۔ برادرم منصور صاحب کی خدمت میں بصد ادب التماس ہے کہ پلیز آپ خود ہی اپنی اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ آخر وہ ہے کون جو حکومت کو کہہ رہا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے آپ کو ضرور کھڑا ہونا پڑے گا۔؟ ان 47حکمرانوں کو اگر واقعی عوام نے اپنے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے تو پھر کوئی کیسے انہیں ڈکٹیٹ کر سکتا ہے ۔ میں نے بصورت شعر کبھی کہا تھا کہ ’ سوچ فکر پہ پہرے جو بھی سب ستم اور بے جا ہیں‘ ۔ ایک بڑا ہی پرانا گانا یاد آ رہا ہے کہ
کچھ کہہ نہ سکے کچھ کہہ بھی گئے ، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔
لاجواب و نایاب صنف سخن رباعی کے عہد موجود میں دبنگ و سر بلند استاد شاعر برادرم نصیر زندہ جی مدظلہ کے الفاظ میں:
حاکم کے سر میں کان بہرے نہ لگائو
قوموں کی انا پہ زخم گہرے نہ لگائو
ایسے نہ چڑھائو سورج کو سولی پر
آواز جنوں پہ چُپ کے پہرے نہ لگائو