یہودی غرور خاک ہو سکتا ہے۔۔۔

ندیم اختر ندیم
پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ خود کو اسرائیلی بھیڑیوں کی نظروں سے بچاتی عفت مآب بیبیاں اجڑی ہوئی گلیوں میں آنکھوں میں اشکوں کی برسات لئے پناہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ کپکپاتے ہونٹ دعائوں میں مشغول تھے سہمی ہوئی نگاہیں خوف میں ڈوبی ہوئی تھیں یہ کئی روز کی بھوکی پیاسی تھیں جو یہودیوں کی دسترس سے کہیں دور جانا چاہتی تھیں لیکن انہیں کہیں امان نہیں مل رہی تھی ان کی آنکھوں میں اپنوں سے بچھڑنے کا غم خار مغیلاں کی طرح چبھ رہا تھا غیر محفوظ یہ بیبیاں کسی محافظ کی تلاش میں تھیں کہ کوئی صلاح الدین ایوبی آجائے اور انہیں بچا لے صلاح الدین ایوبی صرف تاریخ اسلام نہیں بلکہ تاریخ عالم کے مشہور فاتحین و حکمرانوں سے تھا جس نے1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس آزاد کرایا تھا۔ جہاں اب یہودی مسلط ہیں کون سا ایسا ظلم ہے جو یہودیوں نے فلسطینیوں پر روا نہیں رکھا بچوں سے لے کر بوڑھوں تک جوانوں سے لے کر خواتین تک ہسپتال میں پڑے بیمار ہوں یا پناہ گزین۔ مجبور بے بس شہری ہوں یا ہجرت کرنے والے یا امداد کے منتظر شہری ہوں یہودیوں نے ہر جگہ ان پر آگ اور بارود برسایا ہے رمضان المبارک کے مقدس
مہینے میں روزہ داروں پر عین افطاری کے وقت بم پھینک دئیے گئے گرتے پڑتے لٹتے شہری زخموں سے چور جسموں کے ساتھ ایک سال سے یہودیوں کے بارود کی آگ پھانکتے ہوئے فلسطینی اپنوں سے بچھڑنے کا غم لیے گھائل روح اور زخموں سے چور جسموں کے ساتھ مر مر کر جی رہے ہیں ان کے جسموں سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں جو آہ بن کر بن کر نکلتی ہیں آہوں کی آمیزش حالات کو کتنا سوگوار کر جاتی ہے یہ فلسطینی ہی جانتے ہیں ان بچوں کے مناظر بھی آنکھوں میں تیر کی طرح پیوست ہو کر رہ چکے ہیں جن کے ساتھ ان کی ٹیچرز جنگ کی گھن گھرج اور وحشت کے سایوں میں کھیل کود میں مصروف تھیں تاکہ کھیل ہی کھیل میں ان بچوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لائی جائے انہیں جنگ کی خونریزی بھلائی جائے یہ بچے گول دائرے میں اپنی ٹیچرز کے ہاتھ پکڑے اچھل رہے تھے کھیل رہے تھے کہ اچانک ان پر اسرائیل کی جانب سے پھینکا گیا ایک بم گرتا ہے جو چشم زدن میں کھیل کے اس میدان کو لاشوں کا ڈھیر بنا دیتا ہے جہاں چند لمحے پہلے بچے اچھل رہے تھے مسکرا رہے تھے وہاں ان
ہی بچوں کی نعشیں تھیں اور نوحہ کہتے لوگ تھے میں فلسطینیوں سے مل چکا ہوں یہ بڑے نفیس ہوتے جنکے چہروں کی سرخیوں سے شفق بھی شرما جاتا ہے ایسے جیسے ان کے چہروں پر غازہ لگایا گیا ہو ایسے خوبصورت فلسطینیوں کا حسن ان کی شہادتوں کے بعد بھی ماند نہیں پڑا تھا یوں تو نہ جانے کتنے سال فلسطینیوں نے یہودیوں کا ظلم سہتے گزار دئیے لیکن ایک سال سے غزہ کے شہریوں کے لیے کچھ الگ اذیت سے گزر رہے ہیں جسمانی اور روحانی اذیت سے کہ کتنے ننھے پھول کملا گئے کتنے نومولود بچے کہ جنہیں ابھی زمانے میں معصوم مسکراہٹیں لٹانا تھیں کتنے بچے کہ جن کی آنکھوں کی چمک نے ظلمتوں میں اجالا کرنا تھا جن کے ہونٹوں کے تبسم نے تلخیوں میں شہد گھولنا تھا کتنی معصوم عادتیں جنہوں نے زمانے
کے دکھوں میں سکھ کے لمحے شامل کرنے تھے وہ وقت سے پہلے انتقام کا نشانہ بنے سوچتا ہوں کہ کربلائی مناظر کیا ہوں گے؟ کہ جب معصوموں کو پیاسا رکھا گیا اور تپتی ہوئی ریت پر اہل بیت پاک کے گھرانے کے پھولوں کو مسلا گیا کہ جب گلشن زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہ پھولوں پر پانی بند کر کے تیر اور تلوار کی بارش کر دی گئی آج غزہ کی گلیوں کا بھی وہی عالم ہے کہ جہاں بھوکے پیاسے بچے مائوں سے بچھڑے ہوئے جگر گوشے خون آلود ہیں گلیوں میں بکھرے ہوئے زندگی کو ترستے ہوئے سسکتے ہوئے اپنی مائوں کی تلاش میں ہیں اور کتنی مائیں اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہی ہیں حالانکہ وہ بچے تو جنت مکیں ہوچکے غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کسی عالمی قانون قرار داد عالمی عدالتی فیصلے کو خاطر میں لائے بغیر دنیا کے جدید ترین اسلحے کے ساتھ فلسطینیوں پر مشق ستم بحال رکھے ہوئے ہے لوگ قحط سے مر رہے ہیں اور ہر طرح کے وسائل سے مالامال عالم اسلام ہنوز مذمتوں تک محدود ہے امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو کہاں شہید کیا حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کیا گیا حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کو ان کی بیٹی اور کئی کمانڈرز کے ساتھ شہید کرکے جنگ کا دائرہ اور بھی وسیع کر دیا ہے یعنی اسرائیل امریکہ اور اسکے حواری پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف نکل کھڑے ہوئے ہیں مسلمانوں کا نام و نشان مٹایا جارہا ہے اب مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی کیا یاد دلائیے کہ مسلمانوں نے طاغوتی طاقتوں کا غرور کیسے خاک میں ملایا اب بھی مسلمانوں کو اسی جذبہ ایمانی کی حاجت ہے اب بھی یہودیوں صیہونیوں کا غرور خاک میں ملایا جا سکتا ہے۔
اب تازہ دم شاعر ندیم ملک کی بھیجی ہوئی نعت رسولؐ۔۔۔۔۔۔
روشنی تھی ہی نہیں غارِ حرا سے پہلے
بس خُدا آپ ہی تھا نُورِ خدا سے پہلے
نام لیتا ہُوں میں سرکارِ دو عالم کا یہاں
رِزق مِلتا ہے مُجھے اُن کی ثناء سے پہلے
مِیری سرکار سا دُنیا میں کوئی ہے ہی نہیں
بخش دیتے ہیں مُجھے مِیری خطا سے پہلے
طالبِ عِلم ہوں اک نعت کی خواہش ہے مُجھے
کیجئے آج عَطا مُجھ کو دُعا سے پہلے
مَیں نے مانا کہ گُنہگار ہُوں اے ربِّ کریم
مَر نہ جائوں مَیں کہیں اُن کی ثناء سے پہلے
آپ کا نام ہی بخشش کا وسیلہ ہے حضورؐ
اور کوئی نام نہیں نامِ خُدا سے پہلے
بہہ رہا ہے مری آنکھوں سے سمندر اے ندیم
شہرِ طیبہ سے خبر آئی ہوا سے پہلے