Editorial

اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ شہید

موجودہ دُنیا میں اسرائیل درندہ صفت اور سفّاک ترین ریاست ہے۔ اس ناجائز ریاست کے ظلم و ستم اور جبر کے سلسلے خاصے دراز ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران اسرائیلی حملوں اور سفّاکیت انتہائوں پر پہنچی ہوئی نظر آئی ہے۔ یہ پچھلے ایک سال کے دوران فلسطین پر پے درپے حملوں میں 41ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے، جن میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں کی شامل ہے۔ غزہ کا پورا انفرا سٹرکچر تباہ و برباد کر دیا گیا، وہاں صرف عمارتوں کے ڈھیر ہیں۔ اسرائیل نے حملوں میں جنگی اصولوں کو یکسر بالائے طاق رکھا۔ عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا، سکولوں پر حملے کیے، امدادی مراکز اُس کے نشانے کی زد میں رہے۔ ویسے تو فلسطین میں پچھلی نصف صدی سے مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے، لیکن گزشتہ ایک برس کے دوران اس میں خاصی شدّت آئی ہے اور وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی بدترین نظیریں قائم کی گئی ہیں اور دُنیا کے ممالک اور عالمی ادارے محض جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، احکام صادر کر رہے ہیں، جن پر اسرائیل کان دھرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہا۔ پوری انسانیت قاصر ہے ظالم اسرائیل کو روکنے سے۔ اقوام متحدہ میں اس حوالے سے قرارداد منظور کی جاچکی۔ قبل ازیں عالمی عدالت انصاف اسرائیل جو حملے روکنے کے احکام صادر کر چکی، ان احکامات کو اسرائیل نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری جانب ظالم کے خلاف عملی بنیادوں پر مزاحمتی تحاریک سینہ تانے کھڑی ہیں۔ مسلمان مزاحمتی تحاریک اسرائیل سے مردانہ وار مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ ظالم کے طاقتور ترین ہونے کے باوجود اس کے سامنے ڈٹ گئی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کا کردار اس حوالے سے امر ہوگیا ہے۔ یہ مسلمان مزاحمتی تحریکیں عملاً مسلمانوں پر پے درپے ظلم کے خلاف عرصہ دراز سے برسرپیکار ہیں، جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ پاکستان بھی ہر عالمی فورم پر فلسطین کا مسئلہ اُٹھاتا چلا آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اسرائیل نے لبنان پر پے درپے حملے کرکے سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کر ڈالا ہے ۔ گزشتہ روز بیروت میں اسرائیلی بمباری سے تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ شہید ہوگئے۔ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے جنرل سیکریٹری حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کردی۔ گزشتہ روز اسرائیل نے لبنانی دارالحکومت بیروت کے جنوبی علاقے میں بمباری کی تھی اور اس حملے میں 2افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ 5روز میں یہ اسرائیلی فوج کی بیروت پر سب سے طاقتور بمباری تھی، جنوبی ٹائون پراسرائیلی بمباری میں 4عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ ہفتے کو اسرائیلی فوج نے بیروت حملے میں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ حزب اللہ کی جانب سے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حسن نصر اللہ شہید ہوگئے۔ حزب اللہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رہے گی، غزہ اور فلسطین کی حمایت، لبنان کے دفاع کیلئے اپنا جہاد جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کے لبنانی چینل المنار پر حسن نصراللہ کی شہادت کا اعلان کیا گیا۔ اسرائیل نے بیروت حملے میں حزب اللہ سربراہ کی بیٹی زینب نصراللہ کی بھی شہادت کا دعویٰ کیا ہے۔ حسن نصراللہ اپنے پیش رو عباس الموسوی کے اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر سے شہادت کے بعد 1992میں صرف 32سال کی عمر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے عراق کے شہر نجف میں تین سال تک سیاست اور قرآن کی تعلیم حاصل کی، یہیں ان کی ملاقات لبنانی امل ملیشیا کے رہنما سید عباس موسوی سے ہوئی، 1978 میں حسن نصراللہ کو عراق سے بے دخل کردیا گیا۔ لبنان کے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے کے بعد حسن نصراللہ نے امل تحریک میں شمولیت اختیار کرلی، انہیں وادی بقاع میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے 1982میں بیروت پر حملے کے بعد حسن نصراللہ، امل سے علیحدہ ہوکر حزب اللہ میں شامل ہوئے۔ حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف تنظیم کے طور پر ابھری، حسن نصر اللہ کا اصرار تھا کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔ حماس کے 7اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے حزب اللہ لبنان، اسرائیل سرحد کے ساتھ قریباً روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتی رہی ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت پر پوری مسلم دُنیا اشک بار ہے۔ اُن کی زندگی بھرپور جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ مسلمانوں کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔پوری مسلم دُنیا اُنہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کررہی ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد نعیم قاسم کو حزب اللہ کا عبوری سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ مزاحمت کا سلسلہ مزید زوروں سے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ حزب اللہ سمیت دیگر مزاحمتی تنظیمیں کسی طور ظالم کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہیں۔ وہ اس سے اُس کے کیے کا پورا پورا حساب لیں گی۔ ظالم چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالے۔ مسلمان مزاحمتی تحاریک کو اپنے مشن سے ہٹا نہیں سکتا۔ مسلم رہنمائوں کو نشانہ بناکر اسرائیل اپنے مذموم مقاصد کسی طور حاصل نہیں کرسکتا۔ اُس کا خاتمہ قریب ہے۔ اسرائیل کے پاپ کا گھڑا لبالب بھر چکا ہے۔ قدرت کے انصاف سے پوری دُنیا باخبر ہے۔ اس دُنیا کی معلوم تاریخ میں جتنے ظالم آئے، جتنی سفّاکیت اور درندگی اُنہوں نے مچائی۔ اللہ رب العزت نے اُن کا انجام اُتنا ہی بھیانک اور عبرت ناک کیا۔ آج لوگ اُنہیں بُرے ناموں سے پکارتے ہیں۔ اسرائیل بھی آئندہ وقتوں میں ایسے ہی ظالم اور سفاک ترین ملک کے حوالے سے پہچانا جائے گا۔ اسرائیل کا انجام بھی پچھلے ظالموں سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ ناجائز ریاست صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اس کے ظلم کے دن پورے ہوئے۔ جلد یہ کیفرِ کردار کو پہنچے گی۔ مسلمانوں کا خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے ۔
دل کی صحت کا خاص خیال رکھیں!
پاکستان میں صحت کی صورت حال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ یہاں بیماریوں کے پھیلائو کے حوالے سے حالات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ کون سا ایسا مرض ہے جو اپنا بھرپور وجود نہ رکھتا ہو۔ عوام النّاس بیماریوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے اور اُنہیں خود کو لاحق بیماریوں کا علم تک نہیں۔ اس پر طرّہ کہ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ غریبوں کو علاج کی خاطر کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، تب جاکے اُن کا نصیب یاوری کرتا اور اُنہیں علاج معالجے کی سہولت میسر آپاتی ہے۔ امراض قلب میں بھی پچھلے برسوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور ہر سال ہونے والی زیادہ تر اموات کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ یہاں لاکھوں لوگ اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں یومیہ 50۔60ہزار اموات امراض قلب کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ صورت حال سنگین حالات کی غمازی کرنے کے لیے کافی ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملکی آبادی کا ہر چوتھا پانچواں شخص اس مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اگر اب بھی اس صورت حال کا سدباب کرنے کے لیے علاج معالجے کی سہولتیں بہتر بنانے سمیت آگہی کا دائرہ کار وسیع نہیں کیا گیا تو اگلے وقتوں میں حالات مزید سنگین شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اتوار کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں دل کی بیماریوں سے بچائو کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں سیمینارز، واکس اور دیگر تقاریب کا انعقاد ہوا۔ اس یوم کا مقصد لوگوں کو امراض قلب کی وجوہ، علامات، بروقت تشخیص، علاج اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنا تھا۔ دل کے عارضے کی بڑی وجہ معلومات کی کمی، تمباکو نوشی، شوگر، ہائی بلڈپریشر، آرام پسندی، غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، بسیار خوری اور باقاعدگی سے ورزش نہ کرنا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت تمباکو نوشی، غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، بسیار خوری ایسی بد عادات میں مبتلا ہے اور تبھی بآسانی امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ عالمی یومِ قلب تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو دل کی صحت کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب قلب صحت مند اور توانا رہے گا تو جسمانی افعال بھی بہتر رہیں گے۔ شہریوں کو متحرک طرز زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ بلڈ پریشر جیسے خوفناک مرض سے محفوظ رہ سکیں جو امراض دل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ خود کو صحت مند رکھنے کے لیے تمباکو نوشی ایسی لت سے پیچھا چھڑایا جائے۔ ورزش کو اپنی زندگی کا معمول بنایا جائے ۔ اُن سرگرمیوں کا حصّہ بنیں جو دل کے لیے مفید ثابت ہوں۔ حکومت بھی بیماریوں خصوصاً امراض قلب کے تدارک کے ضمن میں راست اقدامات یقینی بنائے۔ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتوں کی فراوانی ممکن بنائی جائے۔ آبادی کے تناسب سے سرکاری ہسپتالوں کی تعداد خاصی کم ہے، اُن میں معقول حد تک اضافہ کیا جائے۔ امراض قلب کے سدباب کی خاطر آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم امراض قلب پر قابو پانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button