ColumnRoshan Lal

سپیکر رولنگ، بارہ برس بعد دوبارہ

تحریر: روشن لعل
قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے19ستمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں 2017میں کی گئی ترمیم کی رو سے سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ایاز صادق کے اس خط کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی و قانونی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو جو خط لکھا اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں کے کیس میں تحریک انصاف کو نشستیں عطا کر نے کا فیصلہ جاری کرکے نہ صرف الیکشن کمیشن کو مخمصے میں ڈالا بلکہ خود اپنے فیصلے کے مبہم ہونے کا احساس کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ مقدمے کے فریقین مزید وضاحت کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں مزید وضاحت کا ذکر ہونے کے باوجود جب الیکشن کمیشن نے فیصلے میں موجود ان باتوں کی طرف اشارہ کیا جو اس کی نظر میں مبہم ہیں تو سپریم کورٹ نے ڈانٹتے ہوئے اسے یہ جواب دیا کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں نشستیں الاٹ کرنے کے اس کے 12جولائی کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔ اسمبلیوں میں نشستوں کی الاٹمنٹ کیونکہ سپیکر اسمبلی کے عمل دخل کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتیں لہذا الیکشن کمیشن نے جب سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے رجوع کیا تو ان کی طرف سے خط کے ذریعے وہ جواب دیا گیا جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے12جولائی کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کے آزاد حیثیت سے جیتنے والے جن اراکین اسمبلی نے قبل ازیں سنی اتحاد کونسل نامی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی وہ نہ صرف اب تحریک انصاف کے اراکین شمار کیے جائیں گے بلکہ ان اراکین کی تعداد کے تناسب سے اسے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی الاٹ کر دی جائیں گی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے بعد تحریک انصاف کا مذکورہ یقین متزلزل ہو چکا ہے۔ اپنے اس متزلزل یقین کے باعث تحریک انصاف نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور اس وضاحت کی درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اسے نشستیں الاٹ کرنے کے فیصلے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کیسے اس فیصلے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔
وطن عزیز میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران سیاسی ، قانونی اور عدالتی معاملات سے وابستہ جو بھی اہم واقعات رونما ہوئے ان میں کسی اصول ، ضابطے اور قانون کی نسبت دھڑے بندی کا عنصر زیادہ کارفرما نظر آتا رہا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا 12جولائی کا فیصلہ جن گروہوں کے سیاسی مفادات کے برعکس ہے، ان کے اس فیصلے پر کیے گئے تبصروں سے یہ محسوس ہوا کہ انہیں یہ فیصلہ مبنی بر آئین و قانون نہیں بلکہ عدلیہ میں موجود خاص دھڑے بندی کا نتیجہ لگتا ہے۔ عدلیہ میں دھڑے بندیوں کے اشارے اس وقت بھی دیئے گئے جب عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد بھی عدلیہ میں دھڑے بندی کی موجودگی کا تاثر ختم نہ ہو سکا مگر جو نئی دھڑے بندی اب محسوس ہو رہی ہے اسے اس مجوزہ آئینی ترمیم کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے جس کی منظوری کے بعد مبینہ طورپر چیف جسٹس کے عہدہ کی میعاد تین برس ہو جائے گی۔ زیر نظر تحریر کا موضوع عدلیہ میں موجود دھڑے بندی نہیں بلکہ سپیکر کا وہ حالیہ خط ہے جو انہوں نے الیکشن کمیشن کو لکھا اور جسے تحریک انصاف سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکی ہے۔ لہذا، دھڑے بندی کی بجائے مزید بات ایاز صادق کے اس خط کے حوالے سے کی جائے گی جس نے سابقہ سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی اس رولنگ کی یاد تازہ کر دی ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف بارہ برس قبل جاری کی تھی۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی، فہمیدہ مرزا نے جس خاص سیاسی دھڑے کا حصہ بن کر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف رولنگ دی ، وہ چاہے فی الوقت اس سیاسی دھڑے میں موجود نہیں ہیں مگر تاریخ ان کی رولنگ کو اسی طرح درست قرار دے چکی ہے جس طرح بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کے خلاف پچاس برس بعد آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت پہلے تاریخ نے بھٹو کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ تاریخ یہ بھی تسلیم کر چکی ہے کہ افتخار محمد چودھری کی قیادت میں سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ ججوں کا اپنی آئینی و قانونی حدود سے تجاوز تھا۔ تاریخ موجودہ سپیکر ایاز صادق کے رولنگ کی شکل میں الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی اس کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں عطا کرنے کے جس فیصلے پر عملدرآمد کو سپیکر نے قانون کی رو سے ناممکن قرار دیا ہے اس فیصلے کے متعلق کئی قانون فہم مبصرین اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ ان قانون فہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسفہ قانون کی رو سے ایسے عدالتی فیصلے کسی طرح بھی آئینی و قانونی طور پر درست تسلیم نہیں کیے جاتے جن میں کسی فریق کو اپنے حق میں دلائل دینے کا موقع فراہم کیے بغیر فیصلہ سنا دیا گیا ہو یا پھر فیصلے میں کسی فریق کو وہ کچھ بھی عطا کر دیا جائے جس کی اس نے درخواست ہی نہ کی ہو۔ آئندہ تاریخ، تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں فراہم کرنے کے فیصلے کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اسے دیکھنے کے لیے شاید بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔ زیر نظر تحریر میں جہاں فہمیدہ مرزا کے اپنا سیاسی دھڑا تبدیل کرنے کا ذکر کیا گیا وہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ خواجہ آصف کا سیاسی دھڑا گو کہ ماضی کی طرح اب بھی مسلم لیگ ن ہے مگر ایاز صادق کی رولنگ کے لیے ان کا موقف وہ نہیں ہے جو موقف انہوں نے فہمیدہ مرزا کی رولنگ کے حوالے سے اختیار کیا تھا۔ خواجہ آصف وہ شخصیت ہیں جو سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے سامنے فہمیدہ مرزا کی رولنگ رد کرنے کی درخواست لے کر گئے تھے ۔ اپنے ماضی کے برعکس خواجہ آصف اور مسلم لیگ ن کا موقف اب یہ ہے کہ پارلیمنٹ ، قانون سازی کا حق رکھنے والا اس ملک کا واحد سپریم ادارہ ہے، لہذا کسی عدالت کے ججوں کی اپنے طور پر آئین تحریر کرنے کی خواہش کو ان کا آئینی حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بارہ برس قبل خواجہ آصف کی مسلم ن اور تحریک انصاف نے ایک ساتھ اور یک زبان ہو کر پارلیمنٹ کی بجائے افتخار چودھری کی قیادت میں سرگرم سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ سے برتر ثابت کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی تھی۔ آج خواجہ آصف اور مسلم لیگ ن ماضی کی نسبت ایک مختلف مقام پر موجود ہیں مگر تحریک انصاف آج بھی ماضی کے مزار پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ معلوم نہیں کہ تحریک انصاف کو تاریخ سے سبق سیکھنے میں مزید کتنا وقت لگے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button