ColumnImtiaz Aasi

ایک تیر سے دو شکار

امتیاز عاصی
بظاہر چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کرکے اپنا قد کاٹھ بڑھا لیا ہے اور کہا ہے وہ انفرادی طور پر مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے۔ دراصل جناب چیف جسٹس نے ایک تیر سے دو شکار کر لئے ہیں۔ اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کا مقصد قوم کو یہ بتانا مقصود تھا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے منصب پر مزید رہنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ یہ بات کوئی راز نہیں رہا ہے حکومت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کا بل لا رہی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے اس نے ججز کی مدت ملازمت اور تعداد بڑھانے کے لئے ایوان میں مطلوبہ تعداد پوری کر لی ہے۔ سوال ہے کیا یہ ممکن ہے حکومت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کر رہی ہوں اور چیف جسٹس اس بات سے لاعلم ہوں؟ حکومتی اقدام کے دو مقاصد واضح ہیں ایک وہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتی ہے دوسری طرف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر من پسند ججوں کو اعلیٰ عدلیہ میں تعینات کرکے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کی طرف گامزن ہے جس سے واضح ہو گیا ہے حکومت انصاف کے قتل پر یقین رکھتی ہے۔ ججزکی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کے بعد جناب قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں خود بخود تین سال کا اضافہ ہو جائے گا۔ آئین میں ترمیم کے بعد ہائی کورٹس کے ججز جو 62سال کی عمر میں پہنچنے کے بعد ملازمت سے رٹیائر ہو جاتے تھے مستقبل قریب میں وہ 65سال کی عمر پر پہنچنے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوں گے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے ججز جو 65سال کی عمر پر اپنے منصب سے ریٹائر ہوتے تھے آئین میں ترمیم کے بعد 68 سال کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوا کریں گے۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ یہ کہہ سکتے ہیں انہیں مدت ملازمت میں اضافے کی خواہش نہیں تھی حکومت نے ججز کی مدت ملازمت بڑھا دی ہے تو انہیں اپنے منصب پر رہنا پڑے گا۔ مسلح افواج میں یہ روایت رہی ہے جب کسی جونیئر جنرل کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر لگایا جاتا ہے تو سپر سیڈ ہونے والے سنیئر ترین جنرلز اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ میں اس طرح کی کوئی مثال ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے، نہ تو اس سے قبل ججز کی تعداد میں اور نہ مدت ملازمت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے سرکاری ملازمت میں کوئی ناگزیرIndispensible نہیں ہوتا۔ سرکاری افسر آتے جاتے رہتے ہیں اور ادارے چلتے رہتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں بھی جج آتے جاتے رہتے ہیں اور عدلیہ معمول کے مطابق عوام کو انصاف فراہم کرتی رہتی ہے۔ عجیب تماشا ہے ججز کی مدت ملازمت میں اضافہ کی صورت میں سنیئر ترین ججز کا مستقبل قریب میں ترقی سے محروم رہ جانا یقینی ہے۔ ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ چیف جسٹس اپنے عہدے پر زیادہ سے زیادہ ایک دو سال رہنے کے بعد عمر پیرانہ سالی پر پہنچ جاتے ہیں، ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں سنیئر ترین جج آئندہ ترقی سے محروم رہ جائیں گے۔ سوال ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کئی بار اقتدار میں رہ چکی ہے دونوں جماعتوں کو ججز کی مدت ملازمت اور تعداد بڑھانے کا خیال نہیں آیا۔ دونوں جماعتیں ماضی قریب میں ججز کی تعداد میں اضافہ کرتیں تو عوام کو حصول انصاف کے لئے دربدر نہ ہونا پڑتا۔ سیاست دانوں کو عوام کی فکر ہوتی تو اپنے سابقہ ادوار میں ججز کی تعداد بڑھا سکتے تھے لیکن ججز کی تعداد میں اضافے کے مقاصد بڑے واضح ہیں۔درحقیقت حکومت کو ملک کی سب سے بڑی جماعت کے بانی کو جیل میں رکھنا مقصود ہے تو ججز کی تعداد اور مدت ملازمت میں اضافہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دینے کے باوجود سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا مقصد عوام کو جلسہ میں شرکت سے روکنا تھا۔
تاہم اتنے انتظامات کرنے کے باوجود حکومت اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمات سے ظاہر ہوتا ہے حکومت پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خائف ہے۔ سیاست دانوں نے اقتدار کی خاطر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ملک میں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ ایوان میں آئین اور قانون کا واویلا کرتے ہیں آئین اور قانون کا معاملہ ہو تو سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ہم سے ایک انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔ سیاست دان راست باز ہوں اور ملک و قوم کی ترقی میں مخلص ہوں کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ ملکی سیاست میں منافقانہ روش سے سیاست دان ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے۔ جس روز سیاست دان ذاتی مفادات کے خول سے نکل کر ملک اور عوام کے مفاد میں کام کرنے کا عزم کریں گے اور ہمارے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے رہنمائوں نے ذاتی مفادات کی سیاست کی یہی وجہ ہے الیکشن میں عوام نے تینوں جماعتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ تینوں جماعتوں کو عوام کو انصاف کی فراہمی کی فکر ہوتی تو کئی بار اقتدار میں رہتے ہوئے ججز کی تعداد بڑھا دیتے ۔ جب ذاتی مفادات کی بات آن پڑی تو ججز کی تعداد میں اضافہ اور مدت ملازمت بڑھائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں لاکھوں کیس زیر التواء ہیں حکومت نے کبھی عوام کے کیسز کو جلد نپٹانے کی بات کی۔ تعجب ہے اعلیٰ عدلیہ میں سیاست دانوں کے کیس ختم ہونے میں نہیں آتے۔ چلیں حکومت کی طرف سے سیاسی مقدمات نمٹانے کے لئے نئی عدالتوں کے قیام پر کام ہو رہا ہے اگر ایسا ہوگیا تو سپریم کورٹ میں عوام کے زیر التواء لاکھوں کیسز کی سماعت ممکن ہو سکے گی۔ ہم امید کرتے ہیں حکومت سیاسی وابستگی کے ہٹ کر نئے ججز کا انتخاب کرے گی ورنہ دوسری صورت میں غریب عوام حصول انصاف کے لئے پہلے کی طرح دور رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button