Columnمحمد مبشر انوار

فیصلہ ہو گیا!!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
تحریک انصاف شدیدترین دبائو،سختیاں اور صعوبتیں جھیلنے کے بعد،مسلسل جلسہ کی اجازت نہ ملنے کے بعد ،اجازت ملنے اور منسوخ ہونے کے بعد ،مسلسل رخنہ اندازیوں کے بعد،8ستمبر 2024کو اسلام آباد سے ملحق ایک مقام پر جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔تاہم ضلعی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کی جانب سے اس جلسہ کو متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش ناکام ثابت ہوئی اور جو گمان پنجاب حکومت یا تحریک انصاف کے مخالفین کا ،عوامی مایوسی سے متعلق تھا، وہ بری طرح زمین بوس ہو گیا اورپاکستانی عوام نے اس جلسہ میں جوق درجوق شریک ہو کر اس جلسہ کو کامیاب کروا دیا۔اس جلسہ کی اہم ترین حقیقت ،اس جلسہ میں جماعت کے سربراہ کی عدم موجودگی تھی اور تحریک انصاف بجا طور پر اس کا کریڈٹ لینے میں حق بجانب ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت قیدی نمبر 804اور اس کے موقف کے ساتھ کھڑی ہے اورہر صورت حقیقی آزادی کی خواہشمند ہے۔ جمہوری اصولوں پر نظر دوڑائیں یا ان کو مد نظر رکھیں تو جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ،تولا نہیں کرتے،اس جلسے سے یہ ثابت ہو گیا کہ جمہوری طور پر پاکستانی عوام عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کر چکی ہے ۔ اس حقیقت میں بھی اب کوئی کلام نہیں رہا کہ عمران خان اس وقت، پاکستانی عوام میں مقبولیت کی انتہاپر ہیں،چشم فلک نے اس سے قبل کسی عوامی رہنما کی اتنی مقبولیت کی شہادت نہیں دی،جو اس وقت عمران خان کو حاصل ہے۔ گو کہ عمران خان سے قبل ،بابائے قوم محمد علی جناح کو برصغیر کی عوام نے اتنی پذیرائی بخشی تھی یا ان کے بعد مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کو یہ اعزاز حاصل رہا اور مغربی پاکستان میں یہ مقبولیت ذوالفقار علی بھٹو کا نصیب ٹھہرا،بعد ازاں اس کا کچھ پرتو بے نظیر بھٹو میں نظر آیا لیکن عمران خان ان تمام مذکورہ سیاسی رہنماؤں پر برتری حاصل کر چکے ہیں۔ اس جلسہ میں جو باتیں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے کی گئی ہیں،ان پر اختلاف رائے کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جب بات آئینی حقوق کی آئے گی،آئین کی پاسداری کی آئے گی تو کیا محض مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر اسے رد کیا جا سکے گا؟یہ کس قسم کا آئین ہے کہ ایک طرف ایک سیاسی جماعت کے لئے اس میں تمام گنجائشیں موجود ہیں ،ان کے لئے جلسے و جلوس کی سہولت میسر ہے جبکہ پورے پاکستان میں صرف ایک سیاسی جماعت کو اس آئینی حق سے محروم کیا جاتا ہے،کیا ایسے آئین کو منصفانہ تصور کیا جا سکتا ہے؟یہاں یہ تاثر رکھنے والے ،جو آئین کی مخالفت کرتے ہیں،ان سے دست بستہ عرض ہے کہ آئین تو اپنے تقدس کے ساتھ موجود ہے البتہ اس پر عملدرآمد کروانے والی انتظامیہ کی جانبداری و تعصب پرنہ صرف بحث ہو سکتی ہے بلکہ انتظامیہ کے متعصبانہ روئیے پر سخت تنقید بھی کی جا سکتی ہے،اس سے اپنے آئینی حقوق تسلیم بھی کروائے جا سکتے ہیں،جو بہرطور تحریک انصاف نے کروا لئے۔ پس پردہ کون سے حقائق ہیں،ان پر بھی بات کی جاسکتی ہے تاہم ان کی اشاعت اس سے مشروط رہتی ہے کہ کہیں ’’ ریڈ لائن‘‘ کی حد عبور نہ ہو،ویسے تو ساری دنیا کو علم ہو چکا ہے اور ہر چیز میڈیا پر آ چکی ہے کہ 22اگست کا جلسہ منسوخ/ملتوی کروانے کے لئے کیا جتن کئے گئے تھے ،جس کے جواب میں حالیہ جلسہ منعقد ہو سکا وگرنہ تحریک انصاف لاکھ جتن کر لیتی،وہ جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔
اس جلسہ میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور خاصے جارحانہ مزاج میں نظر آئے او رانہوں نے ببانگ دہل آئین کی خلاف ورزی کرنے کو حکومت اور دیگر اداروں کی خلاف ورزی سے مشروط کرتے ہوئے،آئین کی خلاف ورزی کو جواز تو بنایا ہے لیکن میری ذاتی رائے میں یہ ایک اعلان سے زیادہ کچھ نہیں کہ اگر تحریک انصاف واقعتا سول نافرمانی کی تحریک پر آمادہ ہوتی تو بہت پہلے کر چکی ہوتی،ویسے بھی کسی سیاسی جماعت جو اس قدر عوامی حمایت کا دعویٰ کرتی ہو،اسے سول نافرمانی کی طرف جانے سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے اور اپنی تمام تر جدوجہد کو قانونی دائرے میں رکھنا چاہئے۔دوسری طرف علی امین گنڈاپور نے اپنے قائد کی رہائی کے لئے جس لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے، وہ بذات خود ایک سیاسی نعرے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا کہ موجودہ حالات میں حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ عمران خان کو تادیر اسیر رکھ سکے۔تاہم اس اعلان کے بعد اگر عمران خان کی رہائی تمام قانونی ضوابط پورے کرتے ہوئے ممکن ہو جاتی ہے، جس کا قوی امکان بہرطور موجود ہے، تو علی امین گنڈاپور اپنی اس بڑھک کا کریڈٹ لینے کی پوری کوشش کریں گے، جو کسی بھی سیاسی کارکن کے لئے ضروری ہوتا ہے۔تاہم اس کا ہرگزیہ مقصد نہیں ہو گا کہ ’’ ریاست‘‘ اس دھمکی کے پیش نظر عمران خان کو رہا کرے گی،درحقیقت جلسہ کے انعقاد بھی ’’ ریاست ‘‘ کی منظوری سے ہی ہوا ہے جبکہ اس کے پس پردہ 22اگست کے جلسے کو ملتوی کرنے پر نرمی اختیار کی گئی ہے،جو بہرصورت ایک خوش آئند اقدام ہے کہ فریقین میں برف پگھلی ہے۔تاہم مزید پیش رفت کا انحصار فریقین کے روئیے پر منحصر ہو گا کہ وہ مستقبل قریب میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کس طرح اپنی جدوجہد میں بروئے کار آتے ہیں وگرنہ ’’ ریاست‘‘ کے لئے کسی بھی ناپسندیدہ شخص کو اسیر بنانے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا،خواہ اس کی مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔اس جلسہ میں تحریک انصاف کے رہنمائوں نے نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی نوید بھی سنائی ہے،جو میری دانست میں ناممکن نہیں ہے کہ حالیہ انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے اور جس طرح الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداریاں دائر ہیں،جیسے ان انتخابی عذرداریوں پر کارروائی کی جار ہی ہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ کسی حد تک ریاست بھی ان انتخابی عذرداریوں پر فیصلے سے گریزاں ہے کہ اس صورت میں الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے قاضی تک کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے،جو بہرحال پہلے ہی متاثر ہے ،تاہم ان شفاف فیصلوں کے بعد ممکنہ طور پر تحریک انصاف پارلیمان میں نہ صرف اپنی اکثریت ثابت کر سکتی ہے بلکہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی آسکتی ہے۔بہرکیف 9ستمبر رات گئے،حکومت کی جانب سے جلسہ کرنے کی شرائط پر ہونے والی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں نہ صرف تحریک انصاف کے قائدین کے خلاف پرچے دئیے جا چکے ہیں بلکہ ان کی پر پکڑ دھکڑ بھی شروع ہو چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات نہ صرف حکومت کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ حکومت بچانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے تاہم دوسری رائے یا مطمع نظریہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے حکومت کو جبرا اقتدار سے باہر کرکے ،مظلزمیت کارڈ تھماکر نیا موقف فراہم کر دیا جائے ،دیکھتے ہیں کہ پردہ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔
سوال پھر وہیں پر آجاتا ہے کہ کیا مقبولیت ،قبولیت میں بدل سکتی ہے؟قبولیت کی شرائط کیا اور کیوںہیں؟بدقسمتی یہی ہے کہ پاکستانی سیاست میں ’’ نرسری‘‘ کے کردار کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا اور نرسری کے تربیت یافتہ سیاسی رہنمائوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کماحقہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے۔ اس صورتحال کو ہم بخوبی گزشتہ ادورا میں دیکھ چکے ہیں کہ زیادہ تر پاکستان میں آمریت کا دور دورہ ہی رہا ہے ،وہ خواہ وردی میں رہا ہو یا سویلین کپڑوں میں ملبوس شخصی آمریت رہی ہو،ملکی مفادات کا تحفظ خال ہی دیکھنے کو ملا ہے ،ماسوائے ایوب خان کے ابتدائی دور میں کہ جب نئی نئی آزادی کی خوشی میں عوام اس ملک کی کامیابی کے لئے دل و جان سے جتی دکھائی دیتی ہے اور دوسرا دور بہرصورت،سقوط ڈھاکہ میں بھٹو کے کردارکے باوجود،بھٹو ہی کا دور ہے۔ ان دو ادوار کو بھی بہرحال کامل نہیں کہا جا سکتا کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان میں صنعت اور انفرا سٹرکچر کی حد تک ملکی مفادات کا تحفظ کہہ سکتے ہیں کہ جب آبی ذخائر کو تعمیر کیا گیا تو بھٹو دور میں پاکستانی خارجہ پالیسی کے خدوخال ملکی مفادات کے تابع رہے جبکہ صنعت کا گلا گھونٹ دیا گیا، ان دونوں ادوار میں ہی کسی نہ کسی حوالے سے عوام کا نقصان ہی ہواکہ ایوب دور میں عوام کو محنت کی عادت رہی تو بھٹو دور میں اس کے برعکس معاملہ رہا۔ باقی صورتحال عوام کے سامنے ہے کہ اس ملک پر آمریت اپنے بازو پھیلائے رہی اور اس کے زیر اثر ریاست دوسری جنگوں میں ملوث رہی البتہ اس پر دوسرا موقف انتہائی مختلف ہے کہ وقت کی نزاکت ایسی تھی کہ بقائے پاکستان کی خاطر ان جنگوں میں اترنا پڑا۔ کیا معاملات واقعتا ایسے ہی رہے تھے یا ان کا کوئی سفارتی حل ڈھونڈا جا سکتا تھا یا پاکستان کو ان خطرات سے جنگوں میں کودے بغیر بچایا جا سکتا تھا یا پس پردہ مطمع نظر کچھ اور تھا، جس کا الزام ڈالروں کی صورت لگایا جاتا ہے؟ رہی بات ان خطرات سے بذریعہ سفارت کاری بچا جا سکتا تھا تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو معاشی صورتحال ہے، اس میں پاکستان سفارت میں کس قدر موثر ہو سکتا ہے اورجو سیاسی رہنما اس کا تقاضہ کر رہا ہے، اس کے دور حکومت میں پاکستان سفارت کاری کے معاملے میں کہاں کھڑا تھا؟ ( جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button