معاشی خوشحالی کیلئے حکومتی کاوشیں
پاکستان پچھلے کچھ سال سے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ غریب عوام کا جینا دوبھر ہے، اُن کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں، پچھلے 6سال کے دوران اُن پر مہنگائی کے نشتر بُری طرح برسائے گئے، 2018ء کے وسط کے بعد معیشت کا پہیہ جام کردیا اور ترقی کا سفر روک دیا گیا۔ معیشت دشمن اقدامات کی بھرمار رہی۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام روکا گیا یا رفتار بالکل سست کردی گئی۔ اپنی ناقص پالیسیوں سے اُس وقت کی حکومت نے دوست ممالک کو ناراض کیا۔ غریب عوام کو تاریخ کی بدترین گرانی کی نذر کیا۔ پاکستانی روپے کو پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا۔ ڈالر اُسے ہر بار بُری طرح چاروں شانے چت کرتا رہا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح تین، چار گنا بڑھ گئی، جو گرانی 2035ء میں آتی، وہ وقت سے بہت پہلے 2020۔21میں ہی قوم کا مقدر بنادی گئی۔ اس سے قبل یہ اناڑی حکومت ملک و قوم کا مزید ستیاناس کرتی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے اسے اقتدار سے باہر نکالا اور ملکی معیشت کو پٹری پر واپس لانے کے مشن پر جُت گئی۔ اُس وقت کی حکومتی سربراہی کا تاج شہباز شریف کے سر سجا تھا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا اس اتحادی حکومت کا عظیم کارنامہ تھا۔ اُنہوں نے مختصر مگر پُراثر دور میں کئی انقلابی اقدامات کیے، جن میں سے بعض کے نتائج ظاہر ہوچکے، اور کچھ سے آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔ مدت پوری ہونے پر یہ حکومت رُخصت ہوئی اور نگراں سیٹ اپ آیا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دور میں بھی معاشی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ بہت سے اہم اقدامات یقینی بنائے گئے۔ ڈالر، سونا، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجے میں ناصرف ڈالر کے نرخ نیچے آنے شروع ہوئے بلکہ گندم، چینی اور کھاد وغیرہ کے نرخوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ امسال فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں پھر میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف حلف اُٹھاتے ہی معیشت کی بحالی کے مشن پر لگے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے راست کوششیں یقینی بنارہے ہیں۔ کئی ملکوں کے دورے کر چکے اور اُنہیں وطن عزیز میں عظیم سرمایہ کاریوں پر راضی کر چکے ہیں۔ آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں میں مہارتوں کی معراج پر پہنچنے کے لیے اُن کی کاوشیں سب کے سامنے ہیں۔ وہ معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کے حوالے سے خاصے پُرعزم اور غریبوں کی مشکلات میں خاطرخواہ کمی لانے میں مصروف ہیں۔ اُن کے اقدامات کے طفیل مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر آگئی ہے۔ بجلی بلوں پر بھی اُن کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین کو بڑا ریلیف دیا گیا ہے اور آگے بھی وہ مزید غریبوں کو آسانیاں بہم پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے اتحادی جماعتوں کے ارکان کو عشائیہ دیا گیا، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، ایمل ولی خان سمیت دیگر ارکان پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کو آئینی ترامیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا جب کہ عشائیے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رواں
اجلاس میں ترامیم پیش کرنے پر اتفاق بھی ہوا۔ وزیراعظم نے ن لیگ سمیت تمام ارکان کو اسلام آباد میں موجود رہنے کی ہدایت کی جبکہ ارکان سے خطاب میں کہا کہ جو کچھ پی ٹی آئی کے جلسہ میں ہوا انتہائی افسوس ناک ہے۔ شرکا نے موقف اختیار کیا کہ مولانا فضل الرحمان اور ارکان کی جانب سے آئینی ترامیم کی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے اپنے نمبر پورے کرلیے اور اسے 224ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نے حکومتی امور میں تعاون پر اتحادی جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ماہ اگست میں مہنگائی کی شرح کا 9.6فیصد پر آنا معیشت میں بہتری کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا عکاس ہے، معاشی ماہرین کی جانب سے ماہِ ستمبر میں افراط زر کی شرح میں مزید کمی کی پیش گوئی قوم کیلئے خوشخبری سے کم نہیں، 2018ء میں بھی افراط زر کی شرح کو سنگل ڈیجیٹ پر چھوڑ کر گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے فضل کے طفیل ملک و قوم کے لیے بتدریج بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی جو جدوجہد ہم نے اپریل 2022 ء میں شروع کی تھی، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ نہ صرف کامیابی سے ہم کنار ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی کی ابتدا بھی ہوئی، ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، معاشی ٹیم کی شبانہ روز محنت کی بدولت نہ صرف معیشت مستحکم ہوئی بلکہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ خادم پاکستان کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد عوام سے عہد کیا تھا کہ ان کی پریشانیوں کو کم کر کے ہی دم لیں گے، حکومتی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج عوام کی خوشحالی کی صورت عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، عام آدمی کی زندگی کو آسان اور اس کی معاشی خوشحالی کے بغیر پاکستان کی ترقی کے ہدف کا حصول ممکن نہیں، معیشت کی ڈیجیٹائزیشن حکومت کی اولین ترجیح ہے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی مکمل ڈیجیٹائزیشن کا آغاز اس حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں کے حوالے سے غریب اور کم آمدن والے طبقات کے لیے اقدامات کررہے ہیں، حکومتی حجم کم کرنے اور خرچے میں کمی کے حوالے سے رائٹ سائزنگ اور ڈائون سائزنگ کا عمل شروع ہوچکا، ملک کو سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، کل ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کی گئی، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی قیادت میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا لیکن بدقسمتی سے اس نے دوبارہ سر اٹھایا ہے، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اعلامیے کے مطابق اتحادی جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز نے حالیہ معاشی استحکام پر وزیراعظم کی کوششوں کو سراہا اور وزیراعظم کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ جب نیک دلی اور سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں تو وہ ضرور بارآور ہوتی ہیں۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت معیشت کی بحالی کا ہدف ضرور حاصل کرے گی۔ عوام کی مشکلات کا بھی خاتمہ ہوگا اور اُن کے تمام تر مسائل کچھ ہی عرصے میں حل کرلیے جائیں گے۔ قوم کو مہنگی بجلی سے بھی نجات ملے گی اور گرانی کا جن جلد مکمل طور پر بوتل میں بند ہوگا۔ دہشت گردی کے عفریت پر بھی ان شاء اللہ جلد قابو پالیا جائے گا۔ اس کے لیے
سیکیورٹی فورسز تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ ملک کچھ ہی سال میں ترقی کی معراج پر ہوگا اور اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں کیا جائے گا۔
2کروڑ 62لاکھ بچے تعلیم سے محروم
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگائی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں تعلیم کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جہاں گھوسٹ اسکول اپنا وجود رکھتے ہیں، وہیں گھوسٹ اساتذہ کی بھی چنداں کمی نہیں۔ تعلیم پر یہاں پر شروع سے وہ توجہ نہ دی جاسکی، جس کی ضرورت تھی، نتیجتاً حالات وقت گزرنے کے ساتھ مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ یہاں خواندگی کی شرح انتہائی افسوس ناک حد تک کم ہے۔ خواندہ افراد میں بھی وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا جانتے ہیں۔ تعلیم کے لیے ملکی بجٹ میں ہر بار انتہائی معمولی حصّہ مختص کیا جاتا رہا۔ اس میں سے بھی زیادہ تر رقم کرپشن کی نذر ہوتی رہی۔ آج عالم یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ مستقبل کے معمار تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ افسوس ان کو اسکولوں میں لانے کے لیے ماضی میں کوششوں کا فقدان رہا۔ اس لیے یہ تعداد ہولناک حد تک جاپہنچی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ 6 ہزار 520 بچے اور بچیوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ وزارتِ تعلیم کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں 5 سے 9 سال تک کے 1 کروڑ 7 لاکھ 74 ہزار 890 بچے اور بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔ ان میں بچوں کی تعداد 49 لاکھ 72 ہزار 949 اور بچیوں کی تعداد 58 لاکھ 1 ہزار 941 ہے۔ وزارت تعلیم کے مطابق 10 سے 12 سال تک کی عمر کے 49 لاکھ 35 ہزار 484 بچے بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں۔ ان میں سے 21 لاکھ 6 ہزار 672 بچے اور 28 لاکھ 28 ہزار 812 بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں۔ اسی طرح ہائی اسکول کی تعلیم سے کل 45 لاکھ 45 ہزار 537 طلبہ و طالبات محروم ہیں۔ ان میں طلبہ کی تعداد 23 لاکھ 6 ہزار 8 سو 82 اور طالبات کی تعداد 22 لاکھ 38 ہزار 655 ہے۔ وزارت تعلیم کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہائر سیکنڈری کے کُل 59 لاکھ 50 ہزار 609 طلبہ و طالبات تعلیم سے محروم ہیں، ان میں طلبہ 29 لاکھ 92 ہزار 570 اور طالبات 29 لاکھ 58 ہزار 49 ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے اس حوالے سے کاوشیں جاری ہیں، اسکولوں میں انرولمنٹ بڑھانے کے اقدامات سامنے آرہے ہیں۔ والدین کو بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے وظائف دینے کے اعلانات بھی سننے میں آئے ہیں۔ یہ کاوشیں ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ 2 کروڑ 62 لاکھ بچوں کو ہر صورت اسکولوں میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو تعلیم ہر صورت دلائیں، یہ ناصرف شعور دیتی، بلکہ زندگی کو سنوارنے کا بھی باعث ہے۔ اس سے بچوں کو محروم رکھنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ دین اسلام میں بھی تعلیم کے حصول پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔