ColumnImtiaz Aasi

نئی بحث

امتیاز عاصی
افغانستان کے چیف آف آرمی سٹاف فصیح الدین فطرت کی پریس کانفرنس نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کی سختی سے تردید کی جب کہ وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے ثبوت انہوں نے خود دیئے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں افغان حکام کو پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے۔ خواجہ آصف نے افغان چیف آف آرمی سٹاف کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کی۔ انہوں نے کہا دراصل افغان چیف آرمی سٹاف خود حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ وزیر دفاع کے مطابق ٹی ٹی پی اور دہشت گرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی بارے عالمی رپورٹس موجود ہیں، یہی وجہ ہے کوئی ملک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے لگتا ہے طالبان حکومت اپنے آرمی چیف کو حقائق سے لاعلم رکھے ہوئے ہے۔ تعجب ہے ہمارا ملک برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے ایسے میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے غیر ملکی اسلحہ کی برآمدگی اور ان کی قومیت سے بڑھ کر کیا ثبوت ہے۔ یہ درست ہے بین الاقوامی قوانین کی رو سے افغانستان پاکستان کی ذمہ داری Liabilityہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں پاکستان افغان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دے اور افغانستان کے لوگ ٹی ٹی پی سے باہم ملکر مملکت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کریں۔ اہم بات یہ ہے جو دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں ان کی قومیت اور غیر ملکی اسلحہ کی برآمدگی کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہو رہی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پاکستان کی حکومت اور عوام دل و جان سے افغانستان کے رہنے والوں کی عزت و توقیر کرتے ہیں جس کا بین ثبوت عشروں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں افغان مہاجرین کو شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے انہیں مہاجر کیمپوں تک محدود رکھا گیا۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے افغان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں عام شہریوں کی طرح رہنے کی اجازت دی اس کے باوجود افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی سے مل کر
ہمارے ہاں دہشت گردی کرکے نہ جانے کیا حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ باوجود اس کے پاکستان کو روس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے احسانات ماننے کو تیار نہیں ۔ افغانستان اور بھارت کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے وہ دہشت گردی کی وارداتیں کرانے کے باوجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں یاد ہے 2009ء میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مصر کے دورہ کے دوران بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو دہشت گردوں کے بیانات اور اعترافی بیانات پر مشتمل فائل حوالے کی اس کے باوجود بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور اس سلسلے میں امریکی خفیہ اداروں کو پاکستان سے زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ کئی سال قبل روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی اور خاد نے مل کر راولپنڈی کے کشمیری بازار میں دھماکے کئے جس میں کئی جانیں ضائع ہوگئیں تھیں۔ نائن الیون کے بعد تو ہمارے ہاں دہشت گردی میں اور اضافہ ہوا۔ خاص طور پر لال مسجد کے واقعہ کے بعد شہروں میں مساجد میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو
گیا۔ دراصل یہ سب کچھ جنرل مشرف کو امریکی سپورٹ کا ردعمل تھا۔ ان دنوں ہمارا ملک ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں حالیہ دہشت گردی میں اضافہ کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ سرحدوں پر سمگلنگ کی موثر روک تھام اور افغانستان سے لوگوں کی من مانی آمد پر پابندی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے جو طالبان حکومت کو سمجھ نہیں آتی کیا کوئی ملک بغیر ویزا اپنے ملک کسی کو آنے کی اجازت دیتا ہے ؟ طالبان کی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان بغیر ویزا آمد کی خواہش مند ہے حالانکہ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں کسی ملک کے لوگ دوسرے ملک بغیر ویزا چلے جائیں۔ ایک وقت تھا جب یمن کے لوگ سعودی عرب بغیر ویزا حصول ملازمت کے لئے آیا کرتے تھے لیکن بعد ازاں یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ وزیر دفاع کی اس بات سے ہم متفق نہیں ٹی ٹی پی کو واپس آنے کی اجازت عمران خان کی حکومت نے دی۔ سوال ہے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت عمران خان کا تنہا فیصلہ تھا؟ حالانکہ اس طرح کے فیصلوں میں اداروں کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ اگر ادارے ایسی باتوں پر رضامند نہ ہوں تو کوئی حکومت اس طرح کے بڑے فیصلے نہیں کر سکتی۔ اسلامی نظام کی دعوے دار طالبان حکومت نے پہلے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی لگائی اور اب
مارشل آرٹس جیسی تفریح پر پابندی لگا دی ہے۔ سوال ہے کیا اسلام میں خواتین کی تعلیم پابندی ہے؟ ہمارا مذہب تعلیم پر زور دیتا ہے ۔ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ تعجب ہے کئی عشرے قبل دہشت گردی کا نام و نشان نہیں تھا افغان جنگ کے بعد دہشت گردی نے جو سر اٹھایا وہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ دہشت گردوں سے غیر ملکی اسلحہ کی برآمدگی اور ان کے بیانات کے بعد کون سی شک والی بات رہ گئی ہے کہ دہشت گردی افغانستان سے نہیں ہو رہی ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی کے واقعات کو دیکھا جائے تو اس کے تانے بانے افغانستان اور بھارت سے ملتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت اور بھارت دونوں مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرا رہے ہیں۔ حیرت اس پر ہے افغان چیف آف آرمی سٹاف میں سچ بات کرنے کی جرات نہیں وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ ہماری مسلح افواج دہشت گردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہیں ورنہ دہشت گرد کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان دونوں نے امریکی افواج کا مقابلہ کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کیا، جس کے بعد ان کا دوسرا ہدف ہمارا ملک ہے۔

جواب دیں

Back to top button