سی پیک مخالف بیرونی ہاتھ
تحریر : روشن لعل
سی پیک سے وابستہ امیدیں، نہ تو ابھی تک پوری ہو سکی ہیں اور نہ ہی ان کے جلد بر آنے کا کوئی امکان ہے، کوئی امید پوری نہ ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پاک، چائنہ اکنامک کوریڈور سے لگائی گئی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ سی پیک کا آغاز دس برس پہلے ہوا تھا۔ اس عرصہ کے دوران یہاں تیسری حکومت قائم ہو چکی ہے۔ ان دس برسوں میں عوام کو اس منصوبے سے وابستہ امیدیں قائم رکھنے کے ساتھ یہ بھی باور کرایا جاتا رہا کہ بیرونی ہاتھ سی پیک کو ناکام بنانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں 26اگست 2024کو دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہونے کے بعد اعلی حکومتی اور ریاستی شخصیات نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ سی پیک مخالف بیرونی قوتیں اس منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے دہشت گردوں کی پرورش کرنے کے ساتھ انہیں ہر قسم کی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو بیرون ملک، کون قابل غور سمجھتا، جب اپنے ملک کے اکثر مبصر ہی انہیں سنجیدہ سمجھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ شاید ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے منہ سے یہ باتیں برآمد ہوئیں ان کا اپنا کردار سی پیک کو بار آور ثابت کرنے اور بلوچستان میں حقیقی امن قائم کرنے کے حوالے سے کافی مبہم تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ شخصیات کے مبہم کردار کے باوجود کسی بھی مبصر کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ ’’ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے کارفرما بیرونی ہاتھ‘‘ جیسی باتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ، مذکورہ بیرونی قوتوں کے اس منصوبے سے متعلق جاری کئے گئے ان بیانات کو نظر انداز کر دے جن میں اس منصوبے کی صاف لفظوں میں مخالفت کی جاتی رہی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ’’ سی پیک‘‘ منصوبہ، چائنہ کی اس ’’ ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پالیسی کے تحت شروع کیا گیا جو کسی ایک ملک کی بجائے ایشیا، یورپ اور افریقہ کو وسیع تجارتی راستوں سے جوڑنے کے لیے تیار کی گئی۔ پاکستان میں سی پیک کا آغاز اپریل 2015میں ہوا جبکہ چین 2013میں عالمی سطح پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کر چکا تھا۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے اعلان کے فوراً بعد امریکہ نے اسے اپنے معاشی مفادات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ چین نے بھارت کو بھی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کے تحت معاہدہ کرنے کی پیش کش کی لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا تھا۔ چین نے جب بنگلہ دیش کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کے تحت معاہدہ کیا تو بھارت نے اس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف اس کا حصہ بننے سے انکار کیا بلکہ حسینہ واجد کی حکومت پر اثرانداز ہوتے ہوئے چین ، بنگلہ معاہدے میں ہر ممکن تعطل پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔
جب پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا تو مودی حکومت نے اس موقف کے تحت کھل کر اس کی مخالفت کی کہ گلگت بلتستان، جہاں سے یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے، اسے کیونکہ بھارت اپنا حصہ تصور کرتا ہے اس لیے یہ منصوبہ بھارت کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ون بیلٹ ون روڈ پر تحفظات کے اظہار کے بعد امریکہ نے جب سی پیک کی بھی مخالفت کی تو اس نے ہو بہو بھارت کا مذکورہ موقف دہرایا۔ ایک موقع پر ٹرمپ کے سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے اپنے ملک کے قانون سازوں کو بریفنگ دیتے ہیں سی پیک کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا کہ انہیں سی پیک پر اس لیے اعتراض ہے کیونکہ اس کا گزر گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقے سے ہوتا ہے۔ وہ گلگت بلتستان کو اس لیے متنازعہ سمجھتے ہیں کیونکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ کشمیر کا حصہ ہے۔ امریکہ کو سی پیک پر اس لیے بھی اعتراض ہے کیونکہ یہ منصوبہ چین کی ون بیلٹ ون روڈ سکیم کے تحت بنایا جارہا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے متعلق امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت ریل اور سڑک کے جتنے بھی نیٹ ورک بنائے جارہے ہیں ان پر صرف چین کی اجارہ داری ہوگی، جبکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ سڑکیں چاہے کسی ملک کی
قومی گزر گاہیں ہوں یا بین الاقوامی راستے، ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ جب جیمز میٹس نے امریکی عوامی نمائندوں کے سامنے سی پیک کے متعلق اپنا موقف پیش کیا، اس وقت پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی۔ عمران حکومت کے ترجمانوں نے کارروائی کے طورپر جیمزمیٹس کی سی پیک پر تنقید کا جواب تو دیا لیکن عالمی سطح پر یہ حقائق نہیں رکھے کہ اگر گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر اس سے بھی زیادہ متنازعہ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ورلڈ بنک نے بھارتی جموں و کشمیر کے لیے 1978میں سیب ، اخروٹ اور مش روم کی پیداوار میں اضافہ اور اس پیداوار کی منڈیوں تک رسائی کی غرض سے سڑکوں کی تعمیر کے لیے 14ملین امریکی ڈالر کا ایک منصوبہ منظور کیا تھا۔ اسی طرح بھارتی جموں وکشمیر میں جنگلوں کی بحالی کے منصوبے کے نام پر ورلڈ بینک نے 1982میں33ملین امریکی ڈالر کا قرض منظور کیا جس کی 1992میں توسیع و تجدید کی گئی۔ پھر بھارتی جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں واٹر شیڈ مینجمنٹ منصوبے کے لیے ورلڈ بینک نے 2008میں 151.10ملین ڈالر کا قرض منظور کیا۔ بھارتی کشمیر سے بہنے والے جہلم اور توی دریائوں کے سیلاب سے تحفظ کے لیے ورلڈ بینک ،2015میں 250 ملین امریکی ڈالر کا قرض منظور کر چکا ہے۔ اگر عمران حکومت کے ترجمان سی پیک پر امریکی و بھارتی تنقید کا مذکورہ حوالوں کے ساتھ جواب دیتے تو ان کی بات میں وزن پیدا ہو سکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں ہمارے دفتر خارجہ کے لوگ اپنا موقف پیش کرتے وقت اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 26اگست کو بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے پہلے یہاں سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے حوالے سے 19اگست کو ایک اہم پیش رفت ہوئی جس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ فوری اقدامات کے تحت ملکی برآمدات کے 50فیصد سے زیادہ حصہ کے لیے اب گوادر کی بندرگاہ استعمال کی جائے گی جس کا سب سے پہلا فائدہ بلوچستان کو ہو گا۔ اس سے پہلے جولائی میں یہ کہا گیا تھا وسط ایشیائی ریاستوں کی خواہشات کے مطابق ان کے سی پیک سے استفادہ کے لیے انہیں پاکستان کی بندرگاہوں پر جدید سہولیات فراہم کرنے کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے ۔ وسط ایشیائی ملکوں کو تجارتی سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں کے تسلسل میں سی پیک منصوبے کے حصے کے طور پاک افغان، طور خم بارڈر پر 5000ٹرکوں کی بیک وقت پارکنگ کے منصوبے کو جلد مکمل کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔ اس طرح کے اقدامات کے اعلانات کے بعد اگر بلوچستان میں فوری طور پر دہشت گردی کے ایسے واقعات رونما ہو ں، جس سے اس صوبے کی شاہراہیں تجارت کے لیے استعمال کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تصور کیا جانے لگے تو پھر اس بات کو سازشی تھیوری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ’’ بیرونی ہاتھ سی پیک کو ناکام بنانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں‘‘۔