جدید ٹیکنالوجی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی

آصف علی درانی
ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں کئی مواقع پیدا کئے ہیں، وہاں اس نے نئی نسل کو ایک خطرناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں انقلاب لا دیا ہے۔ یہ تبدیلی تعلیم، صحت، نقل و حرکت، صنعت اور تفریح کے شعبوں میں واضح ہے۔ تعلیم میں طلبا اب انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے تعلیمی مواد تک پہنچ سکتے ہیں۔ طبی ٹیکنالوجی مریضوں کے علاج میں بہتری لائی ہے۔ نقل و حرکت میں ٹیکنالوجی نے عالمی تعلقات کو آسان بنایا ہے، جبکہ تفریحی صنعت میں ویڈیو گیمز جیسی نئی چیزیں پیش کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہماری روزمرہ زندگی کو نئے مواقع اور تجربات کے ساتھ بدل رہی ہیں۔ دوسری جانب نئی ٹیکنالوجی سے بہت سے منفی اثرات بھی ہماری نوجوان نسل پر پڑتے ہیں، جن میں سب سے پہلا منفی اثر وقت کا ضائع ہونا ہے، نوجوان انٹرنیٹ اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں جس کے باعث ان کی تعلیمی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ دوسرا منفی اثر یہ ہے کہ معاشرتی روابط میں خودی کی کمی ہوتی ہے، جہاں واقعی دنیا میں انسانی تعلقات کے بجائے آن لائن دنیا میں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی پسندیدگی بڑھتی ہے۔ تیسرا منفی اثر آن لائن ہراسانی اور خصوصی معلومات کی حفاظت کا مسئلہ ہے، جہاں نوجوان انٹرنیٹ پر خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے۔ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے وقت کا زیاں ہوتا ہے اور تعلیمی مقاصد متاثر ہوسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی وجہ سے معلوماتی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ منفی رسائی اور اخلاقی مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ تمام منفی اثرات نوجوان نسل کی معاشرتی، جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں۔
پرانے زمانے میں کمیونی کیشن کا عمل آج کے دور کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ پرانے دور میں لوگ عام طور پر خطوط، دستاویزات، ٹیلی گراف اور ابھی تک بنیادی ٹیلی فون کے ذریعے اپنے میسجز یا مواصلات پہنچاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں نے کمیونی کیشن کو آسان اور تیز بنا دیا ہے۔ پرانے زمانے میں دور دراز کے دوستوں، رشتہ داروں سے بات چیت خط کتابت کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس طرح اس زمانے میں لوگ ملکی و غیر ملکی صورتحال سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کیلئے اخبار پڑھتے تھے، مختلف میگزینز کا مطالعہ کرتے تھے اور فلم دیکھنے کیلئے سینما ہال جاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ دفتری کاموں کیلئے زیادہ بندے رکھتے تھے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کا ادب سے شوق بھی زیادہ تھا۔ پرانے زمانے میں لوگ ادب اور لٹریچر کی قدر کرتے تھے اور انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ ادبی اصناف میں شاعری، ناول، کہانی اور مضامین کے ذریعے وہ انسانیت کے مختلف پہلوئوں اور معاشرتی مسائل پر غور کرتے تھے۔ لوگ ادبی مجالس میں شرکت کرتے اور کتابوں کو بڑے سکون سے پڑھتے تھے۔ شاعری اور فنون میں ان کی بہت دلچسپی تھی، جس سے وہ فن اور شاعرانہ اصطلاحات کو سمجھنے اور انہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں اطلاق کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ادب کے ذریعے لوگوں کی شناخت اور فہم میں بڑے اضافے ہوتے تھے، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں بہتری کیلئے اہم عنصر ثابت ہوتے تھے۔ لٹریچر ہمیں تاریخی ماحول، ثقافتی موضوعات اور فلسفیانہ افکار کے بارے میں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں مختلف نوعیت کے
تجربات بہتر طریقے سے سمجھنے اور محسوس کرنی میں مدد دیتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم دیگر لوگوں کے تجربات اور احساسات کو بھی سمجھ سکتے ہیں، جو ہمیں اپنے اندرونی حالات اور تجربات کو بہتر طریقے سے بیان کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اس زمانے میں لوگ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی تصانیف پڑھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے، ان مصنفین کی کتابیں خریدتے تھے۔ اس زمانے میں مصنف لکھتے تھے، اور خوشی سے لکھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں مصنف سے کوئی یہ نہ پوچھتا تھا کہ تم کیوں لکھ رہے ہو؟ اور مصنف کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں؟ مصنف اس لئے لکھتا ہے کہ وہ اپنے خیالات، تجربات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے اور معاشرے میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ اس لئے لوگ مصنف کی کتاب کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی نے ترقی شروع کی۔ ٹیلی فون آگیا میدان میں، پھر کمپیوٹر آ گیا اور یہ ترقی جاری تھی۔ اور جدید ٹیکنالوجی جس کو بعض لوگ نئی ٹیکنالوجی کہتے ہیں میدان میں آگئی۔ اور اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اب آج کے دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ اس ایک الیکٹرانک آلے نے سب کچھ چاہے خط کتابت ہو یا علم و ادب سے محبت یا محنت مزدوری کے طریقے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس ایک موبائل فون کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کمیونی کیشن بھی کر سکتے ہیں، آن لائن کاروبار بھی کر سکتے ہیں، مطلب گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ فلم، ڈرامہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آن لائن بینک سسٹم کے ذریعے رقم بھی بھیج سکتے ہیں۔ کتابیں، اخبارات، میگزین، ملکی و غیر ملکی خبریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس ایک الیکٹرانک آلے کے ذریعے انسان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود سائنس نے انسان کو بہت زیادہ سہولیات دیں کر ان کو تنہا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے بعض دانشور کہتے ہیں کہ یہ کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں جس میں ہزاروں لاکھوں سیارے ستارے گردش کر رہے ہیں، یہ ہماری بیرونی دنیا ہے، اس بیرونی دنیا سے بڑی کائنات ہمارے اندر ہے۔ سائنس نے انسان کو بہت سہولیات دے کر تنہا کر دیا، سماج سے اس کا رابطہ منقطع کر دیا، آج کا انسان ایک بند کمرے میں بیٹھ کر سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، موبائل فون کے ذریعے وہ سب کچھ کر سکتا ہے، کتابیں بھی پڑھ سکتا ہے، مختلف ایپس کے ذریعے ایک دوسرے سے ویڈیو کال پہ بات بھی کر سکتا ہے۔ لیکن وہ مزہ وہ سکون نہیں ہے جو سکون خط کتابت میں ہوتا تھا یا لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے میں تھا۔ ان سب سہولیات کے باوجود آج کے دور کا انسان ذہنی دبائو کا شکار ہے، نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے، آج کے اس جدید دور میں ٹیکنالوجی نے ترقی تو کی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے نفسیاتی بیماریاں بھی پیدا ہوئی ہیں، اور بہت سے لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی کی تیزی اور معاشرتی دبائو کی وجہ سے حقیقی رشتے کمزور ہورہے ہیں۔ افراد کے درمیان بات چیت اور وقت کی کمی بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ حجروں میں بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے سے ملتے، ایک دوسرے کے دکھ، غم خوشی شریک ہوتے تھے۔ اس سے انسان کو یہ فائدہ ہوتا تھا کہ انسان کے ذہن میں جو چیزیں جمع ہوتی تھیں وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرنے سے دور ہوجاتی تھیں۔ نکاس کا راستہ موجود تھا، لیکن اب وہ راستہ بند ہے، جس کی وجہ سے لوگ ذہنی دبائو، بیماریوں کا شکار ہیں۔ پرانے زمانے میں ایک مصنف لکھاری کھل کر لکھتا تھا، اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں۔
آج کے دور میں ہر مصنف لکھاری سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کیوں لکھ رہے ہیں؟ اور موجودہ صورتحال کو دیکھ کر مصنف کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں انسان کا ادب کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہے۔ ہر شخص سائنس کے پیچھے بھاگتا ہے کہ سب کچھ جو ہے، زندگی کا اصل مزا تو سائنس میں ہے۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ لٹریچر کو پڑھتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے معاشرے، سماج میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ہر شخص اس جدید ٹیکنالوجی میں سکون تلاش کر رہا ہے۔ مگر وہ اسے نہیں مل رہا کیونکہ سکون کا تعلق دولت اور شہرت سے نہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا کہ دانشور کہتے ہیں کہ انسان کے اندر کی کائنات باہر کی کائنات سے کافی بڑی ہے۔ اس لئی انسان کو اپنے اندر کی کائنات کو دیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اور اصل میں یہ انسان کو خوش رکھ سکتی ہے۔
آج کے دور میں، ٹیکنالوجی کی رفتار اور معاشرتی دبائو نے انسانوں کے درمیان حقیقی اور معاشرتی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کے درمیان بات چیت اور وقت کی کمی کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں، جس سے ایک دوسرے سے بات چیت اور قریبی رشتے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ذہنی مسائل بھی بڑھ گئے ہیں جیسے کہ تنہائی، اندھیرے، معاشرتی تنائو اور بے چینی کی وجہ سے لوگوں کے پاس اپنے رشتہ داروں اور دوستوں یاروں کو وقت دینے کی کمی ہورہی ہے، جس سے ان کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔