جشن آزادی پلس
روشن لعل
ایک دوست نے 13اگست2024ء کی صبح فون کر کے کہا کہ اس مرتبہ یوم آزادی پر ’’ جشن آزادی پلس ‘‘ منانے کا اہتمام کر دیا گیا ہے۔ یہ بات سنتے ہی، ذہن میں فوراً ان واہیات باجوں کا خیال آیا جنہیں گزشتہ کچھ برسوں سے جشن آزادی کا لازمی جزو بنا دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ سوچا کہ دوست نے اگر جشن آزادی کے ساتھ ’’ پلس‘‘ کا اضافہ کیا ہے تو ضرور اس کا اشارہ اس ٹک ٹک کرنے والے کھلونے کی طرف ہی جسے بے ہنگم باجوں کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے۔ جب فون کرنے والے دوست پر یہ انکشاف کرنے کی کوشش کی کہ اس کی طرف سے جشن آزادی کے ساتھ پلس لگانے کی وجہ سمجھ میں آگئی ہے تو اس نے جواب میں ہماری سمجھ کے لیے حوصلہ شکن الفاظ استعمال کیے۔ یہ دوست حالیہ جشن آزادی کو ’’ پلس‘‘ کہنے کی وجہ بتانے کے لیے اس قدر بے چین تھا کہ ا س نے مزید کچھ سنے بغیر فوراً یہ کہا کہ اسے جشن آزادی کی خوشی اس وجہ سے ’’ پلس‘‘ لگ رہی ہے کیونکہ یوم آزادی سے عین ایک روز قبل جنرل ( ر) فیض حمید کو کورٹ مارشل کے لیے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جشن آزادی پر جس دوست کی خوشی، جنرل ( ر) فیض حمید کی گرفتاری کی وجہ سے دوبالا ہوئی اس کا جھکائو کس سیاسی جماعت کی طرف ہے۔ جشن آزادی پر باجوں اور ٹک ٹک کھلونے کی آوازیں سن کر مزاج پہلے ہی مکدر تھا، اس پر خاص سیاسی جماعت کی طرف جھکائو رکھنے والے دوست کی بات سن کر بیزاری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اسی
بیزاری میں سخت ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے دوست کو وہ باتیں سنا دیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ فون بند ہونے پر سوچا کہ سخت ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے دوست کو جو کچھ کہا گیا اسے نرم لہجے میں بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔
اب تک کی تحریر پڑھ کر اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہورہا ہے کہ فیض حمید کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی کی وجہ سے اپنے دوست کو سخت باتیں سنائیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جنرل ( ر) فیض حمید کے متعلق جو کچھ سامنے آچکا ہے ، کچھ قابل بھروسہ دوستوں کے منہ سے اس سے بھی زیادہ تشویش ناک باتیں عرصہ پہلے سنی جاچکی ہیں۔ فیض حمید کے متعلق جو باتیں سننے میں آئیں، اگر چہ وہ ابھی تک الزامات ہیں مگر ان الزامات کے متعلق بلاجھجھک کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی طرح بھی بے بنیاد محسوس نہیں ہو ر ہے۔ ان الزامات کے تحت گرفتار کیے گئے معتبر ملزم کے متعلق کوئی رائے قائم کرتے وقت ذہن میں فوراً یہ سوال پیدا ہوا کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں میں ایسے لوگوں کے ترقیاں
حاصل کرتے ہوئے انتہائی اعلیٰ اور طاقتور ترین عہدے تک پہنچنے کی گنجائش کیوں موجود ہے۔ جس طاقتور عہدے کو یہ لوگ آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ایسے عہدے ان کی دسترس میں کیوں آ جاتے ہیں۔
جنرل ( ر) فیض حمید پر ، ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک نے جو الزامات عائد کیے ، ان کے علاوہ بھی ان پر اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مختلف مذہبی گروہوں کے دھرنے شروع اور ختم کرانے کے الزامات ہیں ۔ ایسے تمام الزامات کی تفصیل میڈیا پر بار بار نشر ہونے کی وجہ سے انہیں یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں، ان الزامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے کے اس سابقہ اعلیٰ عہدے دار نے مبینہ طور پر جس حد تک اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ، کیا یہ معاملہ بتدریج یہاں تک پہنچا ہے یا پھر پہلی مرتبہ ہی کسی نے اپنے عہدے کا انتہائی غلط استعمال کرتے ہوئے سنگین الزامات اپنی جھولی میں ڈالے ہیں۔
جنرل ( ر ) فیض حمید جس عہدے کے غلط اور غیر قانونی استعمال کے الزام کی زد میں ہیں، یہاں اس عہدے کو غیر آئینی و غیر قانونی طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس ناقابل تردید حقیقت سے انکار کی جرات کون کر
سکتا ہے کہ جنرل ( ر) فیض حمید نے جس عہدے کا غیر قانونی استعمال مبینہ طور پر ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کو لوٹنے اور بلیک میل کرنے کے لیے کیا ، اسی طرح کے عہدے کو یہاں سیاسی مقاصد کے تحت غیر آئینی طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور مہران بنک میں ڈاکہ ڈالا گیا تھا۔ تحریر کے ابتدائیہ میں جشن آزادی پلس منانے والے جس دوست کا ذکر کیا گیا ہے اس دوست کو یہی کہا گیا تھا کہ جنرل ( ر) فیض حمید نے مبینہ طور پر اپنے جس عہدے کا انتہائی حد تک غلط استعمال کیا ، اس عہدے کے غلط استعمال کا آغاز کرنے والے وہ خود نہیں ہیں۔ اس طرح کے طاقتور عہدوں کے غلط استعمال کا جو سلسلہ یہاں عرصہ پہلے شروع ہوکر بتدریج آگے بڑھتا رہا موصوف نے تو صرف اس میں اپنا حصہ ڈال کر مبینہ طور پر اسے انتہا درجے تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ فون کرنے والے دوست سے اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ جس سیاسی جماعت کی طرف اس کا جھکائو ہے اگر اس جماعت کی قیادت نے اسلامی جمہوری اتحاد بنانے اور مہران بنک کے ڈاکہ میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہوتا اور اس سلسلے کو شروع کرنے والے جنرل ( ر) حمید گل مرحوم کا دم چھلا بننے سے انکار کیا ہوتا تو یہ مکروہ سلسلہ بتدریج ترقی کرتے ہوئے کسی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر مبینہ ڈاکہ زنی کی حد تک نہ پہنچتا۔
جنرل ( ر) فیض حمید پر عائد اپنے اختیارات کے غیر قانونی استعمال کے الزام کی جو کہانی میڈیا میں نشر ہو رہی ہے اس میں بہت کم اس بات کا ذکر ہے کہ الزام لگانے والے ہائوسنگ سوسائٹی کے
متنازعہ مالک نے داد رسی کے لیے جب عدلیہ کے دروازے پر دستک دی تو الزام کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ کی ماضی کی روایات کے عین مطابق کسی بااثر کو چیلنج کرنے کی بجائے مٹی پائو کی پالیسی اختیار کی ۔ یہ وہی ثاقب نثار تھے جو ملک کے چیف جسٹس کے معتبر عہدے پر فائز ہونے کے باوجود کسی چھوٹے سے ڈرگ انسپکٹر کی طرح ہسپتالوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے رہے۔
تحریر کے آخر میں کچھ ایسے دوستوں کا ذکر ضروری ہے کہ جو پوچھ رہے ہیں کہ اگر جنرل ( ر) فیض حمید پر عائد الزام سچ ثابت ہو گئے تو کیا انہیں قرار واقعی سزا دی جائیگی یا پھر حسب سابق وقتی کارروائیاں کرنے کے بعد درگزر سے کام لیا جائے گا۔ اس طرح کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ماضی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الحال مقتدرہ سے کسی ایسے عمل کی توقع تو نہیں کی جاسکتی جو روایت شکن ہو۔ ماضی میں کسی طاقتور عہدہ رکھنے والے کو کبھی ایسا سبق نہیں سکھایا گیا جسے دیکھ کر مستقبل میں کوئی آئین شکنی کی طرف مائل ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ یاد رہے کہ اگر اب بھی طاقتور عہدوں کے بل پر آئین شکنی کرنے والوں کو عبرتناک مثال نہ بنایا گیا تو ہم ایک ایسے ملک میں آزادی کے جشن منانے پر مجبور ہونگے جہاں ٹاپ ٹائون سکینڈل سے بھی بڑی وارداتیں رونما ہونے کا امکان موجود رہے گا۔