لاہور کی بارش اور لمبے بوٹ

تحریر : روشن لعل
یکم اگست 2024کو لاہور کے مختلف علاقوں میں شدید بارش برسی ۔ اس شدید بارش کی وجہ سے پورا شہر وسیع و عریض تالاب کا منظر پیش کرتا رہا۔ لاہور کا گزشتہ تجربہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران جب بھی یہ شہر شدید بارش کی وجہ سے تالاب بنا ، ایک لمبے بوٹوں والا شخص یہاں مختلف مقامات پر دکھائی دیتا رہا۔ لاہور کی سابقہ شدید بارشوں کی طرح حالیہ شدید بارش کے دوران دیگر حالات تو حسب سابق رہے مگر جو فرق محسوس ہوا وہ یہ تھا کہ تالاب بنے ہوئے شہر میں مسلم لیگ ن کی حکمرانی کے باوجود لمبے بوٹوں والے صاحب کہیں نظر نہیں آئے۔ لمبے بوٹوں والے صاحب ، سب سے پہلے اپنے مخصوص بارشی لباس میں اس وقت لاہور میں نظر آئے تھے جب 12جولائی 2008 کو لاہور میں برسنے والی 86ملی میٹر بارش نے معمولات زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیاتھا۔ یہ بارش برسنے سے کچھ ہفتے پہلے ہی لمبے بوٹوں والے صاحب تقریباً دس برس کے وقفہ کے بعد دوبارہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ اس بارش کے دوران لاہور کی تمام شاہراہیں اور چوک کسی ندی، نہر یا جوہڑ کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ہر سڑک نما نہر میں موٹر سائیکلیں، کاریں، لوڈر اور دوسری گاڑیاں بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ علاوہ ازیں لاہور کی پسماندہ اور مڈل کلاس کی آبادیاں ہی نہیں بلکہ ماڈل ٹائون، گلبرگ، گارڈن ٹائون ، مسلم ٹائون اور ڈیفنس جیسے کئی پوش علاقوں کی سڑکیں بھی ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ مذکورہ بارش کے دوران لاہور کے کئی علاقوں کے گھروں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے لاکھوں روپے کا گھریلو سامان تباہ ہونے کی خبریں بھی سامنے آرہی تھیں۔
لمبے بوٹوں والے صاحب جنہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالے تقریباً ایک مہینہ ہو ا تھا، وہ مذکورہ حالات میں ایک ڈان کی طرح سڑکوں پر نمودار ہوئے۔ انہوں بارش میں ڈوبے ہوئے شہر کو واسا لاہور کے اہلکاروں کی نااہلی قرار دیا اور فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں اس محکمہ کے ڈائریکٹر آپریشن آفتاب ڈھلوں ، ڈائریکٹر سرفراز شاہ، ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر قاضی فیاض ایکسیئن تنویر قیصر ، ایس ڈی او ز ابوبکر، عامر خلیل، محمد اشرف، سہیل اشرف، منیر حسین، اسلم سندھو اور سب انجینئر کاشف حمید کو ہتھکڑیاں لگوا کر جیل بھیج دیا تھا۔ بارش میں لمبے بوٹ پہن کر پھرنے والے صاحب نے جن لوگوں کو جیل بھجوایا، وہ نہ صرف عدالت سے باعزت بری ہوئے بلکہ بعد ازاں اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر بھی ہو گئے۔ اس کے بعد لمبے بوٹوں والے صاحب2018ء تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس دوران جب بھی شدید بارش ہوئی لاہور نے وہی منظر پیش کیا جو منظر ان صاحب نے 12جولائی 2008ء کو دیکھ کر نہ صرف سابقہ حکومت کو برا بھلا کہا تھا بلکہ کئی لوگوں کو نوکری سے برطرف کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
جب 2018ء میں ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو اس کی جگہ برسراقتدار آنے والی پارٹی کے تبدیلی کے دعویدار سربراہ نے اپنی حکومت کے دوران لاہور میں ہونے والی پہلی بارش کے دوران شہر ڈوبنے پر تقریباً وہی کچھ کہا جو لمبے بوٹوں کی شہرت رکھنے والے صاحب نے دس برس قبل 12جولائی 2008ء کو کہا تھا۔ حوالہ کے لیے 4،5ستمبر 2018 ء کے اخبارات دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعد ازاں تبدیلی سرکار کی حکمرانی کے دوران ، جب بھی لاہور میں شدید بارش برسی، شہر میں تالاب ، نہروں اور ندیوں کے مناظر اسی طرح دیکھنے کو ملے جس طرح سابقہ ادوار میں برسنے والی بارشوں کے دوران نظر آتے رہے۔
مسلم لیگ ن کی موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دور حکومت میں یکم اگست کو لاہور میں برسنے والی بارش دوران جو منظر دیکھنے کو ملا وہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس منظر کا تجزیہ دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک طریقہ تو سنسنی خیزی پیدا کرنے والا روایتی طریقہ ہے ۔ یہ طریقہ اس وقت ہر قسم کا میڈیا اختیار کیے ہوئے ہے ۔ اس کے برعکس دوسرا طریقہ حقیقت پسندانہ ہے جسے نہ کوئی اختیار کرنے اور نہ ہی قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے حقیقت پسندانہ تجزیے کا کیا فائدہ جسے یہاں کوئی اختیار اور قبول کرنے کے ہی تیار نہیں ہے۔ خیر، سنسنی خیزی پھیلانے کے لیے تجزیہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شدید بارش کی وجہ سے ہر جگہ پیدا ہونے والے یکساں حالات کے دوران اپنے ممدوح کو تو بری الذمہ قرار دے دیا جائے جبکہ کسی بھی دلیل اور جواز کے بغیر ناپسندیدہ لوگوں پر جس حد تک ممکن ہو تنقید کے تیر برسائے جائیں۔
لاہور ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں بارشوں کی وجہ سے جو بد ترین صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کے حقیقت پسندانہ تجزیے کا پہلا نقطہ یہ ہے کہ ملک کے ہر شہر اور علاقے کے نکاسی آب کی تعمیر میں اس قدر نقائص ہیں کہ ان سے یہ توقع قطعاً نہیں رکھی جاسکتی کہ یہ معمول سے زیادہ استعمال شدہ پانی کا بروقت نکاس کر سکیں۔ جب یہ بات طے ہے کہ کسی بھی شہر کے نکاسی آب کا نظام شدید کیا معمولی بارشوں میں بھی اضافی پانی کا دبائو برداشت نہیں کر سکے گا تو پھر شہری سیلاب سے تحفظ کے انتظام اسی نقطے کو مد نظر رکھ کر کیے جانے چاہئیں۔ نکاسی آب کے ناقص ترین نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے ، حکمرانوں کو سب سے پہلے اس زعم سے باہر آنا ہوگا کہ انہوں نے کیونکہ شہر کو پیرس بنا دیا ہے لہذا اگر بارش کے دوران شہر ڈوب جاتا ہے تو انہیں لمبے بوٹ پہن کر متعلقہ محکموں ان اہلکاروں کو فوراً معطل کر کے جیل بھجوا دینا چاہے جنہیں قبل ازیں کبھی کچھ نہیں کہا گیا۔ جب سالہا سال سے یہ ثابت ہو چکا کہ شہر کے نکاسی آب کا ناقص نظام شدید بارش کے دوران اضافی پانی کا دبائو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے تو پھر سب سے پہلے ایسے انتظامات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ شہر میں بارش چاہے معمول سے جتنی بھی زیادہ ہو مگر سیلابی پانی کسی ہسپتال کے اندر نہ جانے پائے ۔ اسی طرح ایل ڈی اے کی تعمیر کردہ تاجپورہ سکیم اور گجر پورہ سکیم جیسے وہ علاقے جو 2006ء کے بعد سے معمولی سی بارش کے دوران بھی ڈوب جاتے ہیں، وہاں لوگوں کے گھریلو سامان کا بارش کے پانی سے تحفظ کا خصوصی انتظام کیا جانا چاہیے۔
آخری بات یہ کہ لاہور کی حالیہ بارش کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ اگرچہ شہر بارش کے دوران ڈوب گیا مگر اس کے باوجود ریکارڈ ٹائم میں پانی کا نکاس ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شدید بارش کے باوجود جلد پانی کا نکاس ہوگیا مگر واضح رہے کہ ایسا نکاسی آب کے ڈیزائن نہیں بلکہ لاہور کی قدرتی ڈھلوان کی وجہ سے ہوا جو فی کلومیٹر ایک سے ڈیڑھ فٹ تک ہے۔ یہ قدرتی ڈھلوان نکاسی آب کے لیے کس قدر نعمت کا کردار ادا کرتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی شہر کی قدرتی ڈھلوان صرف تین سے چار انچ ہے۔