مفت بجلی سہولت ختم کرنے کی تجویز پر غور
پاکستان کے عوام خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک چین، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ وغیرہ میں بجلی کی سہولت انتہائی مناسب نرخ پر وہاں کے عوام کو میسر ہے جب کہ وطن عزیز میں اس حوالے سے صورت حال تشویش ناک حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے۔ غریبوں کی آمدن کا بڑا حصّہ یا پوری آمدن ہر مہینے بجلی بلوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھار بجلی بل بھرنے کے لیے غریبوں کو اپنی جمع پونجی بھی وار دینی پڑتی ہے۔ غریبوں کو روٹیوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنے گھروں کا معاشی نظام چلانا دوبھر ہے۔ پچھلے 6 سال میں ہونے والی ہوش رُبا گرانی نے اُن کے مصائب میں ہولناک حد تک اضافہ ک ردیا ہے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے آہستہ آہستہ اُبھر ضرور رہا ہے، لیکن اُس کو کھوئے ہوئے مقام کو پانے میں بھی خاصا وقت لگے گا اور شاید ایسا کبھی نہ بھی ہوسکے۔ مہنگائی تین، چار گنا بڑھ چکی ہے، جو گرانی 2035۔40میں آنی تھی، وہ 2021۔22 میں ہی قوم کا مقدر بنادی گئی۔ ناقص حکمت عملیوں نے معیشت کا بھرکس نکال ڈالا۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچیں اور اب تو بجلی کے بل بعض غریبوں کے لیے دل کے دوروں کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری جانب لاکھوں، کروڑوں بجلی یونٹس مفت ہر مہینے استعمال ہوتے ہیں۔ کھربوں روپے کی سالانہ بجلی مفت استعمال میں آتی ہے۔ یہ بجلی پارلیمنٹرینز، سرکاری افسران وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بجلی بل ادا کرنے کی پوری استطاعت رکھتے ہیں۔ ایسا ملک جس کی معیشت کو زوال سے بحالی کی جانب گامزن کرنے کے لیے حکومت سنجیدگی سے کوشاں ہو، جس کے غریب عوام کی زندگیاں انتہائی مشکلات سے دوچار ہوں، اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا انتہائی کٹھن ہو، ملک میں پیدا ہونے والا ہر نومولود لاکھوں کا مقروض ہو، بے روزگاری کا طوفان بپا ہو، وہاں اتنی بڑے پیمانے پر مفت بجلی اور پٹرول وغیرہ کی سہولتیں مناسب نہیں معلوم ہوتیں۔ خوش کُن امر یہ ہے کہ حکومت نے کفایت شعاری کی راہ اختیار کی ہوئی ہو اور اخراجات میں خاطر خواہ کمی لانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت کی جانب سے ایک اہم فیصلے پر غور کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وزارت انرجی میں ایمرجنسی پلان پر کام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع انرجی ڈویژن کا کہنا ہے کہ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ بیورو کریٹس، ججز، پارلیمینٹرین سمیت سب کی مفت بجلی بند کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں مفت پٹرول کی سہولت بھی واپس لینے پر غور کیا جارہا ہے۔ ملک اس وقت شدید مالی دبائو اور بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا ہے، انقلابی اقدامات سے ہی مستقل ڈیفالٹ سے بچا جا سکتا، برآمدات 60ارب ڈالر لے جانا ناگزیر ہوگیا۔ ذرائع انرجی ڈویژن کا کہنا ہے کہ صرف انڈسٹری اور کاروبار کو جائز سہولتیں دی جائیں گی، فیکٹریوں میں ایم ڈی آئی چارجز کو کم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، نیپرا اور اوگرا کی کارکردگی بھی جانچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک و قوم پر مالی دبائو انتہائی حدوں کو پہنچا ہوا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی صاحب حیثیت فرد، ادارے کو مراعات دینے کی متقاضی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ قوموں پر جب مشکل وقت پڑتا ہے تو بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ شاہانہ زندگی تج دی جاتی ہے۔ کفایت شعاری کو اپنایا جاتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مراعات کے تصور کو مفقود کر دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تجویز پر غور یقیناً خوش گوار ہوا کا تازہ جھونکا معلوم ہوتا ہے۔ ملک و قوم کے مشکل حالات کے دوران جو افراد پہلے ہی بجلی بل بآسانی ادا کرنے کی سکت رکھتے ہوں، ویسے بھی اُنہیں مفت بجلی دینا معقول قدم نہیں معلوم ہوتا۔ بیورو کریٹس، پارلیمنٹرین سمیت سب کی مفت بجلی بند کرنے کی تجویز بھی موجودہ حالات کے تناظر میں صائب معلوم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے جلد از جلد بڑے فیصلے کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اگلے مرحلے میں مفت پٹرول کی سہولت ختم کرنے کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ ان اقدامات سے ملک و قوم پر بوجھ میں بڑی کمی آئے گی۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ممکن ہوسکے گی۔ غریبوں کی اشک شوئی کا بندوبست ہوسکے گا۔ کفایت شعاری کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے اس کے علاوہ بھی اخراجات میں کمی کی خاطر اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ اس میں شبہ نہیں موجودہ حکومت نے انتہائی کم وقت میں بڑے اقدامات کیے ہیں، معیشت کی بہتری کے لیے اُس کی کوششوں کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ملک عزیز پہلے بھی مشکل سے مشکل ترین صورت حال سے اُبھرا ہے اور اس بار بھی ان مصائب کی دلدل سے نکلے گا اور جلد ہی ترقی یافتہ اقوام میں ہمارا شمار ہوگا۔
ہیپاٹائٹس کا عالمی دن اور اُسکے تقاضے
وطن عزیز میں امراض کے پھیلائو کے حوالے سے صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں۔ بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بھی ایک ایسا مرض ہے، ملک میں جس کے مریضوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں اتوار کو ہیپاٹائٹس کے مرض سے آگاہی کا عالمی دن منایا گیا، جس کا مقصد ہیپاٹائٹس جیسے تیزی سے بڑھتے ہوئے مرض کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے 1.6ملین، ہیپاٹائٹس بی کے 2.2بلین اور ہیپاٹائٹس سی کے 170ملین سے زائد افراد شکار ہیں۔ اس مرض سے سالانہ 1ملین سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے وطن عزیز پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں بھی صورت حال تشویش ناک دِکھائی دیتی ہے۔ ہر سال ہی اس میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جب کہ بے شمار افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہونے اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بہت سے عوام کو سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ عدم آگہی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں اس سمیت دیگر سنگین امراض کے شکار لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون سی خطرناک بیماری کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور جب انہیں اس کا معلوم پڑتا ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور مرض آخری اسٹیج پر پہنچ کر جان لینے کے درپے ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض ایک دن اس حوالے سے تقریبات منعقد کرکے بلندبانگ دعووں کے ذریعے اور باقی پورے سال اس کو فراموش رکھ کر ہیپاٹائٹس کے تیزی سے پھیلائو کو روکنا ممکن ہے؟ یوں تو اس پر قابو ہرگز نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ وسیع نہیں کیا جاتا، لوگوں کو مرض کی سنگینی کے حوالے سے بتایا نہیں جاتا، سرکاری اسپتالوں میں ہیپاٹائٹس سمیت دیگر سنگین امراض کے علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں، مثبت نتائج ہرگز برآمد نہیں کیی جاسکتے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں ماضی میں حکومتوں کے لیے عوام کی صحت کبھی بھی او ّلین ترجیح نہیں رہی، تبھی تو اس کے لیے ہر سال بجٹ میں انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر حصّہ مختص کرنے کی روش پر عمل پیرا رہا گیا۔ ہیپاٹائٹس کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ حکومت عوام کی صحت کو اوّلیت دیتے ہوئے ہیپاٹائٹس سمیت تمام خطرناک امراض کی روک تھام کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے۔ بجٹ میں بتدریج شعبۂ صحت کا حصّہ بڑھانے کی مشق اپنائی جائے۔ بیماریوں کے حوالے سے عوامی آگہی مہم شروع کی جائے۔ اس ضمن میں میڈیا بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں ممکن بنائی جائیں۔ اس حوالے سے درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ضرور مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر امراض پر قابو پانے اور کمی لانے میں مدد ملے گی۔