عزم استحکام کیوں ضروری ہے
امتیاز عاصی
بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی جا رہی ہے حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کوئی ریاست اپنے اندر دہشت گردی یا غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو ملک کے داخلی حالات سے پوری طرح آگاہی ہونے کے باوجود آپریشن عزم استحکام کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگرچہ ماضی میں ہماری سرحدوں پر اسمگلنگ کا غیر قانونی دھندا عروج پر رہا ہے اب غیرقانونی دھندے کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں تو اس کا ردعمل یقینی بات ہے۔ کئی عشروں سے افغانستان کی حکومت کی خواہش ہے دونوں ملکوں کی سرحدوں کے آرپار آمدورفت آزادانہ طور پر ہونی چاہیے جس کے لئے ویزا نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت افغانستان کی طالبان حکومت کی اس دیرینہ خواہش کے سامنے دیوار بن گئی ہے لہذا افغانستان سے دہشت گردی کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے سب سے آخر میں پاکستان کو تسلیم کیا لہذا ہمیں افغانستان کی طرف سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ روسی جارحیت سے اب تک کئی لاکھ افغان پناہ گزنیوں کی میزبانی کے باوجود طالبان حکومت تحریک طالبان کے لوگوں کو پاکستان میں دہشت گردی سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے جس کی اہم وجہ یہ ہے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے باہم ملک کر امریکی افواج کا مقابلہ کرکے انہیں افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا اس لئے طالبان حکومت سے یہ توقع رکھنا وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی خام خیالی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہماری معاشی حالات کی خرابی میں افغانستان کا خاصا عمل دخل ہے اگر سرحدوں پر ہونے والی اسمگلنگ رک جائے تو ڈالروں کی غیر قانونی اسمگلنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سپہ سالار کی کوششوں سے ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے کئے جا
نے والے اقدامات سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ اس امر کا بین ثبوت ہے دونوں ملکوں کے درمیان ڈالر کی اسمگلنگ کا دھندا کافی حد تک رک گیا ہے۔ اگلے روز ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں پر یہ بات واضح کر دی آپریشن عزم استحکام سے کسی کو بے گھر نہیں کیا جائے گا جس کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے افواج پاکستان کے آپریشن عزم استحکام کا مقصد کسی شہری کو بے گھر کرنے کی بجائے ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ آجانی چاہیے اگر ہماری سرحدیں محفوظ نہیں ہوں گی تو داخلی امن کا قیام ناممکن ہو جائے گا لہذا ملک کو دہشت گردی بچانے کی خاطر آپریشن عزم استحکام ناگریز ہے۔ یہ بات درست ہے روسی جارحیت کے بعد افغانستان ہماری Liabilityتھی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں افغانوں کو ملک کے اندر کھلی چھٹی دے دی جاتی ۔پاکستان کی سب سے بڑی غلطی افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت تھی حالانکہ ہمسایہ ملک ایران میں پاکستان سے زیادہ افغان مہاجرین تھے جنہیں وہاں کی حکومت نے مہاجر کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے افغان مہاجرین شہروں میں آباد ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے شہروں میں بسنے والے مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کے پی او آر کارڈ ہیں نہ ہی پاکستان کے شناختی کار ڈ اس کے باوجود پر جائیدادوں کے مالک اور بڑے بڑے کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والے ایک افغان بچے سے ہم نے دریافت کیا اس کا والد کیا کام کرتا ہے تو اس نے جواب دیا قالین کی خریدوفروخت کرتا ہے ۔ اس نے بتایا وہ افغانی ہیں لیکن اس کے والد نے انہیں یہ بتانے سے منع کر رکھا ہے وہ افغانی ہیں۔ دہشت گردی کے آئے روز واقعات نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں کے ساتھ عام شہریوں کی شہادتوں کے بعد داخلی امن و امان کے قیام کے لئے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنا کیا افواج پاکستان کا جرم ٹھہرا ہے؟ یہ بات زد و عام ہے عمران خان کے دور میں فاٹا سے نقل مکانی کرنے والوں کو دوبارہ یہاں لا کر آباد کیا گیا۔ سوال ہے کیا نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی عمران خان کا اپنا فیصلہ تھا یا کوئی اور ادارہ بھی اس مشاورت میں شامل تھا؟ جہاں تک افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کی بات ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ کئی عشروں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ اس میں فرق صرف یہ ہے ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ حال ہی میں دہشت گردوں کے سربراہ نور ولی محسود کی کال کے انکشاف کے بعد ہمیں افغانستان سے خیر کی ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی کارروائیوں میں تیزی لانے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ہماری خارجہ پالیسی کا یہ نتیجہ ہے روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا کہاں کی دوستی ہے؟ جیسا کہ سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان بغیر ویزا کے آزادانہ نقل و حرکت اور اسمگلنگ کی اجازت کے خلاف حکومت پاکستان کے اقدامات سے دہشت گردی میں بہت تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو وطن عزیز میں امن کی ضرورت ہے تو پہلے مرحلے کے طور پر تمام قانونی اور غیر قانونی افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جہاں کہیں افغان رہ رہے ہیں ان کی جانچ پڑتال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جو افغان غیر قانونی قیام پذیر ہیں انہیں فوری وطن واپس بھیجنے کے اقدامات ہونے چاہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت اور افواج پاکستان کو بھرپور ساتھ دینا چاہیے تاکہ وطن عزیز سے کسی طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔ ہمیں امید ہے تمام سیاسی جماعتیں آپریشن عزم استحکام پر متفق ہوتے ہوئے عسکری قیادت کا پورا پورا ساتھ دیں گی۔