محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی سیاسی افق کبھی بھی بحرانوں سے خالی نہیں رہا اور یہاں سیاسی دنگل ایک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کسی بھی صورت اقتدار سے الگ ہونے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتی جبکہ ان کا یہ اقتدار اصل حکمرانوں کی مرہون منت رہا ہے۔ خال ہی کوئی ایسی سول و سیاسی حکومت ہمیں دکھائی دی ہے کہ جو اصل حکمرانوں کی حمایت کے بغیر بن سکی ہو، بصورت دیگر اصل حکمران خود اقتدار پر قابض رہے ہیں اور بآسانی امور حکومت سرانجام دیتے رہے ہیں۔ خودساختہ جمہوری خانوادوں کی اکثریت اصل حکمرانوں کے ہمرکاب رہی ہے اور ان کو سیاسی قوت فراہم کرتی رہی ہے، حد تو یہ رہی ہے کہ ایک معروف سیاسی خاندان کی قد آور سیاسی شخصیت چودھری پرویز الٰہی نے فرط جذبات میں جنرل مشرف کو دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کروانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اس پس منظر میں کوئی عقل کا اندھا ہی اس تلخ حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں جمہور کا واقعی کوئی کردار ہے یا پاکستان میں واقعتا مسلمہ جمہوری روایات روبہ عمل ہیں۔ پاکستان میں حصول اقتدار کی خاطر کیا کیا ’’ قربانیاں‘‘، درحقیقت جمہوری رویوں کی قربانیاں، دی جاتی ہیں، ناقابل بیان و ناقابل تردید ہیں ،اس کے باوجود اصرار ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں بعینہ ویسے ہی جب جونیجو/ضیا دور میں اپنا نام لکھنے والے ہر شہری کو خواندہ تصور کیا گیا تھا تا کہ عالمی سطح پر ہماری شرح خواندگی بہتر ظاہر ہو سکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے قسم کھا رکھی ہے کہ عوام کی شرح خواندگی بڑھانے کے ٹھوس اقدامات قطعا نہیں اٹھائے جائیں گے مبادا کہیں عوام پڑھ لکھ کر اپنے بنیادی حقوق سے آگہی حاصل نہ کر لے اور اشرافیہ سے اس کا سوال نہ کرے۔ اسی طرح سرزمین پاکستان انتہائی مشکلوں سے ،بعد از آزادی تقریبا 25سال گذار کر،ایک بازو الگ کروا کر، ایک متفقہ آئین بنانے میں کامیاب ہوئی تھی،ایک ایسی دستاویز کہ جو موجودہ دور میںکسی بھی ریاست کے لئے بنیادی کردار رکھتی ہے، لیکن صد افسوس کہ ہوس اقتدار میں مبتلااشرافیہ نے کبھی اسے پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔جنرل ضیاء نے دستور کے متعلق جو الفاظ کہے،وہ تاریخ کا حصہ ہیں لیکن اس کے بعد بھی دستور کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے،اس کے بعد جنرل ضیاء کے الفاظ واقعتا سچ لگتے ہیں کہ جس مقننہ و انتظامیہ و عدلیہ کے ذمہ اس دستور پر عملدرآمد کروانا ہے،وہ حالات کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے کس طرح پہلو تہی کرتے رہے ہیں،کس طرح طاقتوروں و بااثر افراد کی خواہشات پر اس کی توہین کرتے رہے ہیں،قابل افسوس ہے۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے موجودہ عدلیہ کے فیصلہ پر اصولا من و عن عملدرآمد ہونا چاہئے لیکن بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان،اس پر من و عن عملدرآمد کروانے سے گریزاں ہے گو کہ اپنی پریس ریلیز میں اس پر عملدرآمد کا اظہار کر دیا گیا ہے لیکن بین السطور وضاحت کی پخ لگا کر، اس میں لیت و لعل کی گنجائش نکالی جا چکی ہے۔ اس حوالے سے شنید یہی ہے کہ عدالت عظمی کے فیصلے میں دی گئی مدت کو چیلنج کیا جائے گا کہ قانون کے مطابق آزاد اراکین اسمبلی کے لئے کسی جماعت میں شرکت کے لئے تین دن کا وقت دیا گیا ہے جبکہ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں آزاد اراکین کی کسی سیاسی جماعت میں شرکت کے لئے پندرہ دن کا وقت دیا ہے، بظاہر یہ وقت قانون سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں باقی تمام امور قانون سے مطابقت رکھتے ہیں؟ نیز بصورت وضاحت عین ممکن ہے کے عدالت عظمی اس کا جواب تشفی کے ساتھ دے دے کہ جب آئین کی خلاف ورزی ہو چکی ہے تو اس کے بعد اختیار عدالت کے پاس ہے کہ اس ضمن میں کتنا وقت دیا جانا چاہئے نہ کہ الیکشن کمیشن کا یہ اختیار ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بذات خود ایک آئینی ادارہ ہے، کیا اسے یہ حق حاصل ہے یا اس کا دائرہ اختیار ہے کہ ایسے کسی فیصلے کے خلاف فریق بن کر عدالت میں جائے؟قانونی حوالے سے ہی بات کی جائے تو بظاہر الیکشن کمیشن کا یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ دو صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے پر ،آئین میں دئیے گئے وقت سے تجاوز کرتا لیکن آئینی مدت پر الیکشن رولز کو ترجیح دیتے ہوئے، الیکشن کمیشن نے انتخابات موخر کرتے ہوئے،جنرل ضیاء کے دستور کے حوالے سے کہے گئے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عدالت عظمی کے واضح حکم کے باوجود ،الیکشن کمیشن اپنے مؤقف سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور نہ ہی الیکشن کمشنر نے عدالت عظمی کے احکامات کو اہمیت دی،حالانکہ الیکشن کمیشن کی بظاہر ذمہ داری ہی ملک میں بروقت اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن اس میں ناکام رہا بلکہ موجودہ انتخابات کے حوالے سے حقائق سامنے آرہے ہیں،وہ انتہائی ہولناک ہیں اورجس طرح انتخابی عذرداریوں پر الیکشن کمیشن کی جانبداری سامنے آرہی ہے،وہ شرمناک ہے لیکن الیکشن کمیشن ہٹ دھرمی سے اس پر تلا ہے۔ کیا اس ہٹ دھرمی کو صرف قانونی جواز کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے یا کہیںطاقتوروں کی آشیر باد و بااثروں کی خواہشات کی تکمیل کے عوض انعام و اکرام سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟اس صورت میں کیا الیکشن کمیشن مفادات کے تضاد کا شکار نہیں ہے اور کیا صد فیصد نیک نیتی سے قوانین پر عملدرآمد ہے یا قوانین کی آڑ میں کسی خاص شخصیت/جماعت کی سہولت کاری کی جارہی ہے؟
حیرت سے زیادہ افسوس اور اس سے بھی کہیں زیادہ شرم ہوتی ہے کہ ہم نے اداروں کو حیثیت کو بے معنی کررکھا ہے، تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کے فیصلے پر،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے،وہ عدالتی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملا ہو گا اور درحقیقت مخصوص نشستوں کا مقدمہ بھی اسی فیصلے کے بطن سے مولد ہوا ہے۔ مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں گیارہ معزز ججز نے اس فیصلے کی غلط تشریح پر اپنی صائب رائے کا اظہار کیا جبکہ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کا اصرار ہے کہ اس نے فیصلے کی غلط تشرح نہیں کی، الیکشن کمیشن کا یہ اصرار،کئی دوسرے اسرار کو بے نقاب کررہا ہے کہ میڈیا میں کھلے عام یہ سوالات کئے جا رہے ہیں کہ انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان کئی ایک ملاقاتیں ہوئی ہیں، آیا یہ ملاقاتیں ہوئی ہے یا نہیں،ان کا مقصد کیا تھا،اس راز سے بھی پردہ ضرور اٹھے گالیکن کیا کسی بھی منصف یا کسی آئینی ادارے کے سربراہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ عوامی معاملات میں بذات خود ایک فریق بن جائے،جانبدار ہو جائے؟ حالیہ انتخابات میں واضح طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ نہ صرف چیف جسٹس بلکہ الیکشن کمشنر بھی انتخابات کے حوالے سے ایک ذمہ دار کی بجائے،فریق کی حیثیت سے بروئے کار آئے ہیں،جس کے بعد معاملات میں الجھنوں کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔اس کا ایک اور ثبوت مخصوص نشستوںکے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کو فوری طور پر قابل سماعت کرنے کے لئے چیف جسٹس کی عجلت ہے کہ کس طرح انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق،ججز کمیٹی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس نظر ثانی کو فوری طور پر سننے کے لئے دلائل دئیے ہیں۔ اس حوالے سے چیف جسٹس کا ماضی میں رویہ انتہائی تفصیل کے ساتھ میڈیا میں زیر بحث آ چکا ہے اور قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح چیف جسٹس نے ماضی میں کئی ایک ایسی نظرثانی کی درخواستوں پر تاخیر کرکے انہیں غیر موثر کیا ہے،اور موجودہ نظر ثانی کی درخواست کو کیوں عجلت میں سننا چاہتے ہیں۔شنید تو یہ بھی ہے کہ پارلیمان ایک بار پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ کسی طرح معاملات کو اپنے قابو میں کیا جاسکے اور اس اقتدار کو دوام بخشا جا سکے ۔ دوسری طرف مستقبل قریب میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے والے جج سید منصور علی شاہ نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر تمام اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ ان کے دور میں عدلیہ کے گرد ’’ فائر وال‘‘ قائم کر دی جائے گی جوکسی بھی ادارے کو عدلیہ میں مداخلت کرنے سے باز رکھے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان کو ترقی و خوشحالی کرنا ہے،مستحکم ہونا ہے تو سب سے پہلے عدالتی نظام کو مستحکم کرنا ہو گا جو دیگر اداروں کے استحکام کا ضامن ہو گا۔اس سے قطعا کوئی انکار نہیں کہ اگر عدالتی نظام مستحکم ہو جائے تو پاکستان کے بہت سے مسائل ازخود ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اس کے لئے گزارش ہے کہ عدلیہ کو دیگر بہت سے معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے نظرثانی کے اختیار کو روبہ عمل لانا ہو گا کہ پارلیمان کی طرف سے ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ کے لئے بنائے جانے والے قوانین سے خود کو محفوظ کرنے کی مشق کو ختم کرنا ہو بالخصوص ایسے قوانین جو بنیادی جیورس پروڈنس سے متصادم اور نیت کی بد نیتی آشکار ہو۔ اسی طرح معاشی استحکام کے لئے عدالت عظمی کو آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدوں کو کھولنا ہو گا اور دیکھنا ہوگا کہ ان کمپنیوں کے ساتھ ایسے غیر منصفانہ معاہدوں سے مستفید ہونے والے چہروں کو بے نقاب کرنا ہوگا کہ نظر ثانی کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ سید منصور علی شاہ نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہ کانٹوں سے بھری ہوئی راہ گزر ہے اور انہیں اس میں بہت سے مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا، اور جو نظام بھی وہ لانا چاہتے ہیں اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات بھی ساتھ ہی کرنے ہونگے کہ بغیر تسلسل کے اس کی کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں بہرکیف اپنی اس کوشش میں سید منصور علی شاہ تاریخ میں اپنا نام رقم کر جائیں گے۔