Column

گرمی کی گرما گرمی

صفدر علی حیدری
خبریں بڑی تشویش ناک ہیں۔ مثلاً پاکستان دنیا کے ان 10ملکوں میں سر فہرست ہے جن کا موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ 61سال بعد گرم ترین اپریل اور مئی جون کا ماہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں ۔ گلوبل وارمنگ آج کے عہد کا بڑا مسئلہ ہے جو کو سائنسی ترقی کی مدد حاصل ہے ۔ ماحول میں حرارت کا اضافہ جو گرین ہائوس ایفکٹ پر انسان کے اثر اندازی سے ہو رہا ہے ۔
جب لوگ کوئلہ ، تیل یا قدرتی گیس جلاتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (CO2)پیدا ہوتی ہے۔ یہ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے بچ جاتی ہے تو فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے ۔ اس کرہ ارض میں قدرتی وسائل کروڑوں برسوں سے مخفی حالت میں پڑے ہوئے تھے ۔ پچھلی چند صدیوں یا دہائیوں میں ان وسائل کو نکالنے کے بعد کثرت سے استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن رہا ہے ۔
آکسیجن تمام جانداروں کے لیے ناگزیر ہے ۔ جنگلات کا صفایا اس کمی کا باعث بن رہا ہے ۔ آکسیجن کے تین ایٹموں کے ملنے سے اوزون گیس بنتی ہے ۔ یہ گیس ہماری بیرونی فضا میں زمین سے 12کلو میٹر سے 48کلو میٹر تک اکٹھی ہو رہی ہے۔ اوزون کا یہ ہالہ ہمارے سیارے کو سورج سے آنے والی مضر شعائوں سے بچاتا ہے۔ فضا میں آلودگی کی وجہ سے اوزون لہر میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
عالمی حرارت سے پوری دنیا کے حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہو رہا ہے، عالمی حرارت سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ، مثلاََ جہاں بارش ہو رہی ہے وہاں خشکی آ سکتی ہے اور جہاں خشکی ہے وہاں بارشیں ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ اس سے کچھ علاقوں میں بالکل قحط طاری ہو سکتا ہے اور کچھ علاقے سیلاب کے لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ ماحولیات میں گرما کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال میں پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی حرارت سے گلیشیر پگھل کر پانی میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے ۔اب سوال یہ کہ گرمی کی گرما گرمی سے کیسے بچا جائے ؟ کچھ طریقہ کار ایسے ہیں جن سے عالمی حرارت کو روکنے یا کم از کم اس میں اضافے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاََ عالمی حرارت کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ شجر کاری ، یعنی نئے پودوں کو اگانا ہے۔ پودے اور درخت کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔ مختلف توانائیوں کا استعمال کم کیا جائے جو گلوبل وارمنگ میں اضافہ کر سکتے ہیں، جو توانائی جتنی بار دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہے اسے دوبارہ استعمال کیا جائے ۔ ہیٹر اور ایئر کنڈیشنروں کا استعمال کم کیا جائے۔ حرارتی بلب کو انرجی سیور سے متبادل کیا جائے۔
معاشرے میں یا کم از کم اپنے خاندان میں بھی اگر انسان اس بارے میں آگاہی پیدا کرے تو اس سے گلوبل وارمنگ پوری طرح ختم تو نہیں ہو گی ، کم از کم انسان بساط بھر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ دوسروں کو آگاہی دینا اور ان کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا انتہائی اہم قدم ہے ۔
اگر زیادہ تر قابل تجدید توانائی استعمال کی جائے تو اس سے کافی حد تک گلوبل وارمنگ میں کمی کی جا سکتی ہے ۔اولاً جانور یہ گیس خارج کرتے ہیں۔ بڑے سائز کے جانور اتنی زیادہ میتھین خارج کرتے ہیں کہ کئی سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ گائے بھینس، اونٹ اور اسی سائز کے بڑے جانوروں کو ہلاک کر دینے سے گلوبل وارمنگ پر کنٹرول میں مدد مل سکتی ہی، جب کہ معدنی ایندھن جلانے سے بھی میتھین خارج ہوتی ہے۔
امریکی شہر ہیوسٹن میں موسمی طوفان کے بعد شاہرائیں نہروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ پروفیسر بنجمن ہمیل کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے نتیجے میں ہمارے پاس یہ خوش خبری موجود ہے کہ کم مدت میں گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کا ایک نسخہ اب ہماری دسترس میں ہے۔
اپنے گھر کے خالی غیر استعمال شدہ حصہ میں اپنی گلی میں اپنے محلہ میں اپنی کالونی میں جہاں غیر استعمال شدہ جگہ ملے وہاں اجازت لیکر درخت اور پودے لگائیں
پاکستان میں علماء کرام ، سیاستدان ، سوشل ورکر وغیرہ درخت اور پودے لگانے کی مہم کو پروموٹ کریں۔ اگر ہم نے آج درخت اور پودے کی اہمیت نہ سمجھی تو اب اگلی نسل کی بات نہیں بلکہ اگلے سال ہی ہم سب کو اس سے زیادہ گرم موسم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئے درخت لگانا اہم ہے مگر پہلے سے موجود درختوں کو شجر گردی سے بچانا اس سے زیادہ اہم ہے۔ کاغذ ، گتے والی پیٹیاں ، آرائشی سامان ، فرنیچر وغیرہ سے درختوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اور پہلے سے موجود درخت جن کو پنپنے میں برسوں لگتے ہیں لمحوں میں حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔
ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم نا صرف نئے درخت لگائیں بلکہ پہلے سے موجود درختوں کو بھی بد نیت انسان کی دست برد سے بچائیں ۔ یہ صدقہ جاریہ ہو گا ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

جواب دیں

Back to top button