ہمارا نظام تعلیم اور ڈنڈے والے
تحریر : روہیل اکبر
شکر ہے حکومت کو ہمارے تعلیمی نصاب میں جدت لانے کا خیال آیا ورنہ دنیا اس وقت آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بھی آگے کی باتیں کرنا شروع ہوگئی ہے، ابھی حکومت نے فی الحال اسلام آباد کے نجی و سرکاری سکولوں میں آئی ٹی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی) کے نصاب کی منظوری دی ہے۔ اس منظوری کے بعد مجھے وہ دور یاد آگیا جب دنیا جدید کمپیوٹر جنریشن میں داخل ہوچکی تھی تو ہم نے اس وقت پینٹیم ون سے کمپیوٹر کا آغاز دیکھا اور اب دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اتنی آگے جاچکی ہے کہ ہم اسکی دھول سے بھی پیچھے ہیں، ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی ہم سے اس شعبے میں بہت آگے ہے، انکی تعلیم کا انداز ہم سے بہت مختلف ہے، وہاں کا بچہ بچہ روانی سے انگلش بولتا ہے اور ہمارے ہاں ایم اے انگلش کرنے والے بھی انگلش بولتے ہوئے سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سارے نظام میں خرابی ہمارے نظام تعلیم کی ہے جہاں سیکرٹری ایجوکیشن کا تعلیم سے دور دور کا لینا دینا نہیں ہوتا اور وزیر بیچارے کا تو تعلیم کے شعبہ سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا، ماضی میں ایسے بھی وزیر تعلیم رہے جو خود ان پڑھ تھے اسی لئے تو ہم آج ترقی کے تیز ترین دور میں پڑھے لکھے جاہل کہلائے جارہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں جب کہ وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی ترقی ایکریڈیٹیشن اور تحقیق و ترقی کیلئے مالی معاونت کرتی ہے، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-Aریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5سے 16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے لیکن ہو اسکے الٹ رہا ہے، یہاں اچھی اور اعلی تعلیم عام لوگوں کے بچوں سے کوسوں دور ہے، غریب کا بچہ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھ کر پرائمری تک بڑی مشکل سے پڑھتا ہے، اسکے بعد انکی والدین کی ہمت جواب دے جاتی ہے کیونکہ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا انکے بس سے باہر ہوجاتا ہے کہ وہ حکومت کو پالیں یا اپنے بچوں کو اور اس حکومت نے تو اچھے خاصے سفید پوش کو بھی بھکاری بنا دیا ہے جو اپنے بچوں کو پڑھانے کا صرف سوچ ہی سکتا ہے، ان مشکل ترین حالات میں ہمارے نوجوانوں کو درپیش چیلنجز بھی بڑھتے ہی جارہے ہیں جس کی وجہ سے اچھے اور پڑھے لکھے نوجوان اور پیشہ ور افراد جب بھی موقع ملے ملک چھوڑنے کا انتخاب کر رہے ہیں جس سے برین ڈرین کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پری سکول ( 3 سے 5سال کی عمر کیلئے)، پرائمری (سال ایک سے پانچ)، مڈل (چھ سے آٹھ سال) سیکنڈری (سال نو اور دس سال) سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ یا ایس ایس سی، انٹرمیڈیٹ (گیارہ اور بارہ سال جس سے ہائر سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ یا ایچ ایس ایس سی)اور یونیورسٹی کے پروگرام جو انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ ڈگریوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ 2002میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا تھا جو تمام یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں کا ذمہ دار ہے۔ یہ کمیشن عطاء الرحمان نے قائم کیا گیا تھا۔ پاکستان میں اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں شرح خواندگی کم ہے۔ 2022تک پاکستان کی شرح خواندگی اسلام آباد میں 96 فیصد تک ہے۔ خواندگی کی شرح جنس اور علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی 9.5 فیصد ہے جبکہ آزاد کشمیر میں شرح خواندگی 91 فیصد ہے۔ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی آبادی 22.8ملین ہے، جو نائیجیریا کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کو بیروزگاری کے ایک اہم چیلنج کا سامنا بھی ہے، خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں میں جن میں سے 31فیصد سے زیادہ بے روزگار ہیں جبکہ خواتین کی مجموعی بیروزگار آبادی کا 51 فیصد حصہ ہے جو روزگار کے مواقع میں صنفی تفاوت کو نمایاں کرتا ہے۔ پاکستان ہر سال تقریباً 445,000یونیورسٹی گریجویٹس اور 25,000 سے 30,000کمپیوٹر سائنس گریجویٹس تیار کرتا ہے۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں صرف 67.5 فیصد پاکستانی بچے پرائمری سکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں، ہمارا معیاری قومی نظام تعلیم بنیادی طور پر انگریزی تعلیمی نظام سے متاثر ہے، پری سکول ایجوکیشن 3-5سال کی عمر کیلئے بنائی گئی ہے اور عام طور پر تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پلے گروپ، نرسری اور کنڈرگارٹن ( جسے ‘KG’یا ‘Prep’ بھی کہا جاتا ہے) پاکستان میں بیروزگاری کی اہم وجہ امتیازی سلوک بھی ہے۔ سفارشی کلچر نے میرٹ کی ایسی تیسی پھیر کر رکھی دی ہے۔ سرکاری نوکری کیلئے 30-35سالہ نوجوان overageتصور کیا جاتا ہے مگر 60-65سالہ کوئی ریٹائرڈ بابا بزرگ کسی محکمے کی سربراہی یا سینئر پوزیشن کیلئے اہل تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی نوجوانوں پر بھروسہ تو کریں، سرکار یہ ملک کو اب بھی بہت آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بزرگ تو پہلے ہی پنشن اور مراعات لے رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بجٹ میں تعلیم پر کوئی خاص پیسہ رکھا جاتا ہے اور نہ ہے نئے تعلیمی اداروں پر کوئی توجہ دی جاتی ہے اور تو اور ہمارے سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ ساری عمر اسی گریڈ میں پڑھاتے رہتے ہیں جس میں وہ بھرتی ہوتے ہیں، ہماری حکومتوں کو اساتذہ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ہمارے نونہالوں سے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے ہمارے اساتذہ لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر اپنے حقوق کیلئے نکلے تو ہمارے شیر جوانوں نے اپنی تعلیم کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں انہی ڈنڈوں سے مارا جن ڈنڈوں سے ان نالائقوں نے مار کھائی تھی اور یہ سب کچھ کرانے والے ہمارے حکمران ہیں جن کی وجہ سے پورا ملک لوڈشیڈنگ، مہنگائی، غربت اور جہالت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ تو ہمارے وہ محب وطن حکمران ہیں جن کے بچے اور جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو پروٹوکول انجوائے کرنے سب کو بلا لیتے ہیں، جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو پھر بیماری کا بہانہ بنا کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔ آج ملک میں غریب آدمی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے، اسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جو مڈ ل کلاس گرمیوں میں اے سی لگاکر سکون سے گرمیاں گزار لیتے تھے آج کل وہ بھی اپنے گھریلو سامان بیچ کر بجلی کے بل جمع کرا رہے ہیں۔ اگر کسی کو یاد ہوکہ اسی حکومت نے غریبوں کیلئے بجلی مفت کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے سب سے پہلے غریبوں کے کپڑے بکوانا شروع کر دیئے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے غریبوں کے کپڑے تو اس حکومت کے آنے سے پہلے نگرانوں نے ہی اتروا لئے تھے، اب تو یہ ڈنڈے والے ہیں۔ خیر بات میں کر رہا تھا کہ ہمارا نظام تعلیم ٹھیک ہے نہ ہمارے اس نظام کو چلانے والے، سب نے مل جل کر ہمیں پڑھے لکھے بھکاری اور جاہل بنا دیا ہے اور آج دنیا بھی ہم پر اپنے دروازے بند کر رہی ہے۔ سنا ہے دبئی نے تو ہمارے وزیراعظم کو بھی جواب دیدیا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو ویزے نہیں دیں گے کیونکہ وہ بھی یہاں آکر بھیک مانگتے ہیں۔ جو عزت تھی وہ بھی خاک میں مل گئی۔