بلوغت

محمد مبشر انوار( ریاض)
دنیا اپنے شہریوں، ریاستی مشینری اور عدالتی عملہ کو خوئے غلامی سے نکالنے کے جتن کر رہی ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں اشرافیہ اور صاحب اقتدار و اختیار ہنوز پاکستانیوں کو غلام رکھنے کی سعی لاحاصل میں مشغول ہیں۔ سرکاری اداروں اور محکموں پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ذاتی مفادات کے اسیران، کی نظر میں ملک و قوم کی وقعت دو ٹکے سے زیادہ نہیں اور بعینہ ان کی سوچ نہیں بدلی وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آئینی انتظامی محکمہ جس کی ذمہ داری ملک میں صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہو، وہ بغیر کسی تعاون و شہ کے، اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے انتخابی عمل میں ایک فریق کی طرح بروئے کار آئے؟ الیکشن کمیشن کی اس جانبداری اور بحیثیت فریق کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ بطور آئینی انتظامی محکمہ، عدالت عظمی تک ایک سیاسی جماعت کے خلاف برسرپیکار رہنے کے باوجود، حتمی فیصلہ ہونے پر الیکشن کمیشن ہنوز اس فیصلے پر ناخوش دکھائی دیتا ہے اور اس پر تنقید کی جارہی ہے، الیکشن کمیشن اور اس کے اہلکار، اپنے تئیں عدالت عظمی سے زیادہ قابل تصور کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصولا الیکشن کمیشن کو ازخود غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ قانون کے مطابق مساوی سلوک کرنا چاہئے تھا۔ عدالت عظمی کے اکثریتی فیصلہ کے بعد تو الیکشن کمیشن کے سامنے صرف اس فیصلے پر من و عن عملدرآمد کروانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پشت پناہوں کی طاقت اتنی زیادہ ہے یا وہ ابھی نہیں چاہتے کہ عدالت عظمی کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد کروایا جائے، جس کے لئے الیکشن کمیشن کو سامنے رکھتے ہوئے، کھیلا جا رہا ہے۔ اگر واقعتا ایسی ہی صورتحال ہے تو پھر الیکشن کمیشن کا اپنی حیثیت کیا ہو گی،اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ جس طرح عدالتیں بروئے کار آ رہی ہیں، کسی بھی وقت الیکشن کمیشن کے لئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں بصورت دیگر عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کروانے کی صورت میں ملکی صورتحال کیا ہو گی،اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وقت حاصل کرنے کے لئے،شنید ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر حکومت نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے جا رہی ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح معاملات کو طول دیا جا سکے،بہرکیف حکومت کے اس حق سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت یا کسی بھی فریق کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کر سکے تاہم اس کا نتیجہ کیا نکلے گا،وہ نوشتہ دیوار ہے۔ مروجہ نظام حکومت ایسی صورتحال میں چل سکے گا یا کوئی تیسری قوت اس کو ماضی کی طرح لپیٹ سکتی ہے یا اس کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا جار ہا ہے؟ ماضی کو سامنے رکھیں تو غیر سیاسی قوت کے لئے پاکستان میں مداخلت کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا اور جو کردار اس وقت الیکشن کمیشن کا ہے،ایسے کردارغیر سیاسی قوت کے لئے ہمیشہ سہارا ثابت ہوئے ہیں لیکن شنید یہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں غیر سیاسی قوت کو مداخلت کی لئے درون خانہ بھی حمایت میسر نہیں وگرنہ جو حالات درپیش ہیں، ان میں نظام کو لپیٹنے میں کوئی عذر باقی نہیں بچا۔
حکمران جماعت دعوئوں،وعدوں کے برعکس ہنوز کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے، ماسوائے عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار،جو طریقہ واردات رہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس مرتبہ یہ نسخہ کیمیا بھی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہاکہ عمران خان پوری ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہے، حد تو یہ ہے کہ اس کی اہلیہ، جس کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ ایک غیر سیاسی خاتون ہیں، ان پر دبائو، عمران خان کو توڑ دے گا یا وہ عمران خان کو جھکنے پر مجبور کر دیں گی، ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ ن، ماضی میں یہی کھیل محترمہ بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور زرداری کے ساتھ کھیل چکی ہے، ان کی کردار کشی کر چکی ہے، جبکہ عمران خان کی پہلی شریک حیات جمائما خان کے ساتھ بھی شریف خاندان کا یہی رویہ رہا جس سے دلبرداشتہ ہو کر جمائما خان نے رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ملک چھوڑنے کی شرط عائد کی، جسے تسلیم کرنے سے عمران خان نے انکار کر دیا۔ ریحام خان کے مقاصد مختلف رہے اور وہ عمران خان سے الگ ہونے کے بعد کس طرح آگ اگلتی رہی، کردار کشی، ایک ایسے شخص کی جس نے کبھی ان سے انکار ہی نہیں کیا البتہ اب اس کا دعوی تائب ہونے کا ہے، اس کے باوجود بھی عمران نے پلٹ کر ریحام خان کے کسی ایک حملے کا بھی جواب نہیں دیا،ریحام خان کے مقاصدکو آشکار کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں،بشری بی بی کی ثابت قدمی،عمران خان کے لئے کسی نعمت غیرمتبرکہ سے کم نہیں ،جو عمران کو مزید تقویت فراہم کر رہی ہے،بالخصوص عدت جیسے معاملے پر شریف خاندان اور خصوصی حلیفوںکے ایماء پر قائم کیا گیا مقدمہ میں بشری بی بی کے حوصلے پر داد بنتی ہے وگرنہ جس طرح بشری بی بی کی کردار کشی کی گئی ہے وہ کسی بھی مرحلے پر ٹوٹ سکتی تھی۔ دوسری طرف خاور مانیکا کا کردار ،اس معاشرے کے اخلاقی انحطاط کو آشکار کرگیا کہ کل تک جو بشری بی بی کی عظمتیں بیان کرتا نہیں تھکتا تھا،ایک شرعی مسئلے پر طاقتوروں کے ہاتھوں کھلونا بن گیا،اس سے کہیں بہتر تھا کہ خاور مانیکا اس دبائوکو برداشت کر کے، شرعی طور پر سرخرو ہو جاتا بے شک دنیاوی لحاظ سے اس کے لئے دنیا تنگ ہو جاتی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
عمران خان عدت نکاح کے مقدمہ میں بھی باعزت بری ہو گیااور قوی امید ہے کہ عمران خان دیگر مقدمات میں بھی اسی طرح باعزت بری ہو جائے گا کہ ان مقدمات کی قانونی حیثیت انتہائی بودی ہے کہ شریف خاندان کو حریفوں کو زیر کرنے کا یہی ایک نسخہ یاد ہے لیکن افسوس کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے اور شریف خاندان کی یہ چالیں بے اثر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔شریف خاندان کا سیاسی سفر ایک طرف طاقتوروں کے ساتھ گٹھ جوڑ رہا ہے تو دوسری طرف ان کی سیاست اسی طرح کی غیر اخلاقی چالوں سے پر رہی ہے ،ریاستی مشینری کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرنا ہی شریف خاندان کی کامیابی رہی ہے بعینہ جیسے اس وقت الیکشن کمیشن ان کی حمایت میں بروئے کار آ رہا ہے لیکن اس کے باوجود انتخابات 2024میں شریف خاندان اپنی عوامی حمایت بری طرح کھو چکا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں ان کی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہے، خاندان کی تمام نشستیں الیکشن کمیشن کی مرہون منت ہے کہ جس دن بھی ٹریبونلز نے فارم 45/47کا پوسٹ مارٹم کر دیا، شریف خاندان ہی کیا، پوری ن لیگ سمٹ کر اٹھارہ بیس نشستوں تک محدود دکھائی دے گی۔ سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا اب ن لیگ کے بس کی بات نہیں رہی،انہیں عوامی مسائل کا ادراک نہ کل تھا اور نہ آج ہے، سیاسی حرکیات کا فہم نہ کل تھا اور نہ آج ہے، ان کا مطمع نظر ہمیشہ سے اقتدار کا حصول اور اقتدار میں رہتے ہوئے، ذاتی مفادات کشید کرنا ہے، جو مزید ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔تاہم اس سب کے باوجود ن لیگ نے آخری حربہ کھیلنے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن کیا یہ حربہ کامیاب ہو سکے گا؟پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا اعلان کیا جا چکا ہے اور جو محرکات اس ضمن میں بطور جواز پیش کئے جا رہے ہیں،وہ کس قدر متاثر ہو سکتے ہیں،ان پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ بالخصوص آئین میں دئے گئے طریقہ کار کے مطابق ،کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانااور اس پر عمل درآمد کروانا،کسی کی خواہش پر منحصر نہیں کہ بالآخر اس کا حتمی فیصلہ عدالت کو کرنا ہے ۔ ایک وقت میں نواز شریف پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے ،مقتدرہ کے لاڈلے/چہیتے بھی تھے،انہیں لایا بھی بے نظیر بھٹو کے متبادل کے طور پر گیا تھا،عدالتوں میں بھی جسٹس ملک قیوم جیسے جج بیٹھے تھے ،اس کے باوجود بھی شریف خاندان ایسا کوئی اقدام نہیں کر پایا تھا۔شنید ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا مشورہ/حکم بھی کہیں اور سے نواز شریف کو ملا ہے اور نوازشریف بلا سوچے سمجھے،اس پر عملدرآمد کا اعلان کر بیٹھے ہیں،جس میں کامیابی کا امکان ہی نہیں ہے۔محاذ آرائی کے چمپئن نے اقتدار کی خاطر ایک ایسی چال چل دی ہے جو یقینی طور پر ان کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل کے علاوہ کچھ اور ثابت نہیں ہو گی۔
سابق صدر عارف علوی،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور عمران خان پر آئین کے آرٹیکل6کا اطلاق، عدم اعتماد کی تحریک کو رد کرنے اور بعد ازاں قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر ،کرنے والے نجانے کیوں بھول گئے کہ عدالت عظمی کی مداخلت پر، قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کر دی گئی تھی، اور تحریک انصاف نے اس فیصلے کو تسلیم کیا تھا گو کہ بعد ازاں سائفر پر عمران خان کے خلاف مقدمہ بنا کر حکمران جماعت نے غیر ملکی مداخلت کو تسلیم کر لیا تھا۔ بہرکیف اس سارے کھیل میں ایک حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ شریف خاندان اپنے اقتدار کی خاطر ،کس حد تک جا سکتا ہے، کوئی بعید نہیں، دوسرا شریف خاندان سے سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا کل بھی مشکل تھا اور آج بھی شریف خاندان اپنے حریفوں سے سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کا اہل نہیں، دہائیاں سیاست میں گزارنے کے باوجود سیاسی بلوغت شریف خاندان حاصل نہیں کر پایا۔