حسینی افکار، یزیدی کردار
عبد الحنان راجہ
شیخ اکبر محی الدین ابن العربی نے اہل بیت اطہار کی شان میں کیا خوب لکھا
’’ فلا تعدل باھل البیت خلقا، فاھل البیت ھم اھل السیادہ‘‘
( اہل بیت کے ساتھ تم کسی مخلوق کو برابر نہ کرو کیونکہ اہل بیت ہی اہل سیادت ہیں)۔
بے شک میدان کربلا کے ریگزاروں پر طلوع ہونے والی ہر صبح اور غروب ہونے والی ہر شام امام حسینؓ کی جرات، عزیمت اور استقامت کی گواہی دیتی ہے۔ نواسہ رسول اور جگر گوشہ بتول کی شان میں تا قیام قیامت قلم چلتے اور قصیدے پڑھے جاتے رہیں گے کہ ان کی عظمت و رفعنا لک ذکرک کا پرتو ہی تو ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کمال کہا کہ مسلمان شہید ہو کر عزت پاتا ہے مگر حسینؓ نے شہادت کو عظمت عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تو مسلم اقوام غیر اور حریت کا ہر علمبردار بلا تفریق مذہب ظلم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی قوت حسین سے پاتا ہے یہ کہنا زیادہ مناسب کہ قیامت تک اٹھنے والی حریت کی ہر تحریک شہیدان کربلا کے خون سے فیض پاتی رہے گی، مگر بدقسمتی کہ ہمارے احوال ایسے ہیں کہ امام سے تو دھوکہ ہے ہی، مگر یزید سے بھی وفا نہیں کیونکہ حسینؓ سے اظہار عقیدت و محبت مگر یزیدی نظام کے اسیر۔ حسینی کردار کوئی کہاں سے لائے۔ یہی تو وجہ ہے کہ آج تک کسی نے حسینؓ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، مگر کیا ہے کہ چاہت حسین کی مگر اطاعت یزید کی۔ حسین کو مانتے ہیں مگر حسین کی نہیں مانتے۔ شریعت پر عمل پیرا ہوئے بغیر عقیدت کے دم بھرنا بے مقسد و بے معنی ہے۔ یہ درست کہ قلب و روح تو امام کے ساتھ مگر افعال و کردار کیسے !!! شاید عرب کے معروف شاعر فرزرق نے ہی کہا تھا کہ کوفیوں کے دل تو حسین ساتھ ہیں مگر تلواریں یزید کے ساتھ۔ سو حال ہمارا بھی وہی ہے مگر مانے کون۔ مردہ سے مردہ ضمیر بھی یزید سے نسبت نہیں چاہتا مگر لذات دنیا، ہوس پرستی اور جاہ و جلال و مال کی محبت نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ کہنے کو تو یزید مر گیا مگر اس کے قائم کردہ نظام کے اثرات باقی۔ علم و عمل سے دور ہوئے تو حسنیت کردار سے نکل کر افکار و گفتار تک محدود ہو کے رہ گئی۔ یزید کی اس سے زیادہ ذلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ یزیدی نظام کے وارثان بھی امام حسینؓ کی عظمت کا دم بھرتے ہیں۔ زہرا کے لال کے قصیدے تو پڑھے جاتے ہیں۔کانفرنسسز اور اجتماعات ہوتے ہیں۔ سبلیں لگتی ہیں اور ماتم بھی اور یزید کو لعن طعن بھی کیا جاتا ہے۔ مگر کبھی سوچا کہ مردہ یزید کا قائم کردہ نظام زندہ کیوں ؟ ذاتی زندگیوں میں ھم اسلام سے دور مگر پھر بھی اسلامی نظام کے جھوٹے متمنی۔
اقبالؒ نے اسی لیے تو کہا ہے کہ
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
کاروبار حکومت اور طرز سیاست پر یزیدیت کے سائے گہرے۔ اسلامی اقدار اس وقت بھی پامال ہو رہی تھیں تو آج بھی سیکولر ازم اور جدیدیت غالب۔ والیان و عمال قانون سے اس وقت بھی بالاتر تھے تو آج بھی وہی چلن.۔ ظالم اس دور میں طاقتور تھا تو آج بھی۔ مظلوم کی شنوائی دربار یزید میں بھی نہ تھی تو مظلوم آج بھی دربدر۔ بدعنوانی و بدکرداری کا راج اس وقت بھی تھا تو آج بھی ہے۔ سیاست، حکومت اور معیشت یزیدی نظام کے شکنجے میں ہے اور نظام انصاف بانجھ۔ ذاتی احوال ہوں یا اجتمائی افعال سب اسی نظام کے اسیر۔ تو کہہ سکتے ہیں کہ مردہ یزید کا نظام زندہ ہے۔ پامال ہوتیں اسلامی اقدار اور بگڑتے اخلاق و اطوار یزیدی نظام کی باقیات ہی تو ہیں. پوری امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان بالخصوص بری طرح طاغوتی نظام کے شکنجے میں ہے اور ہم ہیں کہ صبح شام واویلا کرتے ہیں غربت، مہنگائی اور ناانصافی کا مگر پھر بھی علم بغاوت بلند نہیں کرتے۔ ظلم اور ظالم نظام کے خلاف۔ حسینی کردار اور اعلیٰ صفات باطل اور طاغوتی نظام سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتے ہیں مگر وہ ہے نہیں تو جرات کیسی۔ بے حسی کا غلبہ ہی تو ہے کہ امت واحدہ کا تصور مٹ چکا۔ مظلوم کشمیری و اہل غزہ اپنی جنگ خود ہی لڑنے پر مجبور۔ پوری امت مسلمہ ناجائز ریاست کو ظلم و بربریت سے روک سکی اور نہ اس کا معاشی مقاطعہ سکی۔ ظلم کے خلاف ھم قرارداوں تک محدود کہ علم و عمل اور جدید فنون سے دوری نے ہمیں عسکری و اقتصادی معاملات میں کفر کا دست نگر بنا رکھا ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں سائنسی میدان میں ہماری کوئی ایجاد نہیں۔ پہلی پانچ سو یونیورسٹییوں میں ہمارا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں۔ کھانے پینے اور بنیادی اشیائے خورونوش میں بھی ھم غیروں کے محتاج، معاشیات اور نظام بنک کاری پر یہودی قابض اور مسلم ممالک کی اکثریت مقروض اور سودی نظام کے شکنجے میں۔ دنیا بھر کی برائیاں ہمارے معاشرے میں مگر دعوی حسینیت کا۔ اندرونی طور حال یہ کہ ماہ محرم میں امن و امان کا قیام مشکل ترین امر بن جاتا ہے کہ دشمن کی زرا سی شرارت فرقہ وارایت کی آگ بھڑکا دیتی ہے۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود اس مکدر ماحول کو کیوں بدلا نہ گیا۔ اس کے سرغنہ اور اس کے پھیلانے والے قانون کی گرفت میں کیوں نہ آ سکے۔ کیا یزیدی نظام اتنا طاقتور ہے کہ وہ انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور نفرتوں کو پروان چڑھاتا ہے اور قانون اس کے آگے بے بس۔ آج تک اعتدال و پرامن معاشرے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے ٹھوس، مربوط اور منظم لائحہ عمل کیوں ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ ہر سال کا محرم کرفیو کے ماحول میں کیوں گزرتا ہے۔ باہر کے دشمن کی ایما پر اندر کے منافق ریاست کو یرغمال کیوں بنائے ہوئے ہیں اسلام کا چہرہ یزیدی کردار سے کب تک مسخ کیا جاتا رہے گا۔ ریاست دور فاروقی کی یاد تازہ کرنے سے قاصر کیوں؟۔ یہ سوالات جواب طلب ہی نہیں حل طلب بھی ہیں، کہ اسلامی ریاست کے باسیوں کو پرامن فضا، نفرت اور انتہا پسندی سے پاک مصطفوی ماحول کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلوں کے افکار بھی بدلیں اور کردار بھی۔