ColumnRoshan Lal

خواتین کیوں بنائو سنگھار نہ کریں ، مگر؟

روشن لعل
بقر عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی خریداری کا پہلے نمبر پر ہونا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اسی بنا پر ان دنوں کئی لکھنے والے، قربانی کے جانوروں سے متعلق امور پر لکھنے کی طرف راغب ہیں۔ ایسے میں ان اشیاء کو بری طرح سے فراموش کر دیا گیا ہے جن کی خریداری نہ صرف عیدالفطر کے دنوں میں پہلے نمبر پر ہوتی ہے بلکہ بقر عید پر بھی ان کی طلب دوسرے نمبر پر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان اشیا کا تعلق بنائو سنگھار کے شعبے سے ہے۔ بن سنور کر رہنا اور خود آرائی کسے پسند نہیں۔۔۔۔۔۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر نظر آئے۔ اگر یہ خواہش خود پسندی کی حدوں سے آگے نہ نکلے تو ہر طرح سے قابل جواز ہوتی ہے۔ ویسے تو آج کل مرد حضرات بھی آرائش، آراستگی اور خوشنمائی کے لیے بنائی گئی اشیا کے استعمال میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر خود آرائی کے معاملے میں اب بھی عورتوں کا پلڑا بھاری ہے۔ اس معاملے میں ان کا پلڑا بھاری کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس قدر بنائو سنگھار کا سامان عورتیں استعمال کرتی ہیں مرد اس حد تک جا ہی نہیں سکتے۔ ویسے بھی بنائو سنگھار کی طرف نیا نیا راغب ہونے کی وجہ سے مردوں کے چہرے ابھی اتنا زیادہ وزن اٹھانے کے عادی نہیں ہو سکے جتنا خواتین کے چہرے با آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں ۔ بعض خواتین تو بنائو سنگھار سے متعلق اشیا کا استعمال اس قدر وسیع پیمانے پر اور مسلسل کرتی ہیں کہ انہیں خود بھی یاد نہیں رہتا کہ جو کچھ چہرے پر لگا رہتا ہے اس کی دبیز تہوں کے نیچے اصل میں کیا چھپا ہوا ہے۔ سر کے بالوں سے گردن تک میک اپ کی جن چیزوں کی تہیں جمائی جاتی ہیں، محض یاداشت کے سہارے ، کسی تحریر میں ان کا ذکر ممکن نہیں ہو سکتا۔ ایسی ان گنت چیزوں میں سے صرف فائونڈیشن، ٹونر، برنزر، کاجل، آئی لائینر، آئی بروپنسل، آئی شیڈ، بلشر، لپ اسٹک، لپ گلوس، پائوڈر، فریگرنس، ڈیورنٹ، کا نام ایک ساتھ لینے سے ہی سانس پھولنے لگتا ہے۔
مذکورہ تمام اشیاء بنائو سنگھار کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ بنائو سنگھار ہر حد تک خواتین کا ذاتی معاملہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جو معاملہ، انتہائی حد تک خواتین کا ذاتی ہو مردوں کو ہر ممکن اس سے دور رہنا چاہیے ۔ بنائو سنگھار اگرچہ عورتوں کا ذاتی معاملہ ہے مگر جو اشیا اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں انہیں بنانے کے عمل سے پاکستان میں تقریباً سو فیصد اور بیرونی دنیا میں اسی فیصد سے زیادہ مردوں کا روزگار وابستہ ہے۔ بنائو سنگھا کی اشیاء کا استعمال چاہے عورتوں کا ذاتی معاملہ ہے لیکن جب انہیں بنانے کا تقریباً تمام تر عمل مردوں کے دخل کا مرہون منت ہے تو کسی مرد کا اس پر کچھ کہنا ، شجر ممنوع نہیں سمجھا جاسکتا۔ گو کہ بنائو سنگھار خواتین کا ایسا ذاتی معاملہ ہی جس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی ہے لیکن بنائو سنگھار کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں کے حد سے زیادہ استعمال کے جو نقصانات سامنے آچکے ہیں، اگر کوئی مرد ان سے عورتوں کو آگاہ کرنا چاہے تو اسے ایسا کرنے سے روکنا مناسب نہیں ہوگا۔
سطور بالا میں بنائو سنگھا کے لیے استعمال ہونے والی جن اشیا کا ذکر کیا گیا ہے اگر عورتیں اور کچھ مرد بھی ان کا استعمال دن کے اکثر پہروں میں بلاناغہ کرتے ہیں تو یاد رہے کہ ایسا کرنے والوں کو خبط کی حد تک بنائو سنگھار کی عادت کا اسیر سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنائو سنگھار کسی کو بھی خوبصورت، پرکشش اور جاذب نظر بنا سکتا ہے۔ چہرے پر آویزاں آرائشی اشیاء کے مجموعے کی مسحور کن مہک دوسروں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں مقناطیس جیسا اثر کرتی ہے۔ میک اپ کے ذریعے برپا ہونے والا نکھار خود آپ کو ہی نہیں دوسروں کو بھی بھاتا ہے۔ بنائو سنگھار کے بعد ہر کسی کو ایسا لگتا ہے جیسے اس کی عمر کے بڑھتے ہوئے ماہ و سال میک اپ کی چیزوں نے چرا کر ایک طرف رکھ دیئے ہوں۔ ایسا ہونا کسی صورت حقیقی نہیں بلکہ ہر حال میں بناوٹی ہوتا ہے۔ اس بناوٹ کو اگر عارضی ضرورت سمجھ کر صرف خاص وقت تک کے لیے اختیار کیا جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر جو کچھ عارضی ہونا چاہیے اسے اگر مستقل ضرورت اور عادت بن جائے تو ہو سکتا ہے پھر کئی عارضے ایسی عادت کے اسیروں کی طرف متوجہ ہو جائیں۔
زیر نظر تحریر میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے تسلسل میں اب یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ میک اپ کی اشیا کیوں کسی کو عارضوں میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ میک اپ کے نام پر جو اشیا سر سے پائوں تک استعمال کی جاتی ہیں ان میں سے عام شیمپو میں سوڈیم لورل سلفیٹ سمیت 15کیمیکلز، ہیئر سپرے میں اوکٹن اوکسیٹ سمیت 11کیمیکلز، آئی شیڈمیں پولی تھائیلن سمیت 26کیمیکلز، ڈیوڈرنٹ میں ایلومینیم زرکونیم سمیت 32کیمیکلز، لپ اسٹک میں میتھائل میتھا کریلیٹ سمیت 33کیمیکلز، بلش میں ایتھائل پیرا بینز سمیت 16کیمیکلز،نیل وارنش میں فتھالیٹس سمیت 31کیمیکلز، فائوندیشن میں پولی میتھائل کریلیٹ سمیت 24کیمیکلز، باڈی لوشن میں میتھائل پیرابن سمیت 32 کیمیکلز اور پرفیوم میں بینزیل ڈی ہائیڈ سمیت250کیمیکلز موجودہوتے ہیں۔ میک اپ کی اشیاء کی تیاری میں استعمال ہونے والے جن کیمیکلز کا نام یہاں ظاہر کیا گیا ہے ان کے خاص طور پر اور دوسرے کیمیکلز کے بھی انسانی جلد اور جسم کے اندرونی حصوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں انہیں بآسانی انٹر نیٹ کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کالم میں کیونکہ کاسمیٹک اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں اس لیے یہاں صرف یہ بتانے پر اکتفا کیا جارہا ہے کہ بنائو سنگھار کے نام پر کیمیکلز کی مستقل اور مسلسل لیپا پوتھی جلد کے کینسر، سانس کی تکلیف، الرجی اور حمل کی پیچیدگیوں تک جیسی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔
عورتوں کے حساس چہروں پر جس قسم کا میک اپ ، مضر ترین اثرات مرتب کر سکتا ہے اس کے عام استعمال میں نیوز چینلوں سے وابستہ خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ٹی وی چینلوں پر پروگرام پیش کرنے والی خواتین چاہے کسی اور بات کی طرف دھیان دیں یا نہ دیں مگر اپنی تمام تر توجہ، سکرین پر دلہنوں جیسا نظر آنے پر مرکوز کیے رکھتی ہیں۔ شاید دلہن نما اینکر خواتین کو دیکھ کر ہی ہمارے ہاں عام عورتیں اپنے چہروں پر حد سے زیادہ لیپا پوتھی کرنے کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔
تحریر کے اختتام پر پھر یہ دہرایا جاتا ہے کہ بنائو سنگھار کی طرف راغب ہونا کسی طرح بھی ناقابل جواز نہیں ہے ۔ کسی کی بنائو سنگھار کی طرف رغبت اس میں جمالیاتی حس کی بھر پور موجودگی کی گواہی ہے۔ مگر یاد رہے کہ ہر چیز کا متوازن استعمال ہی درست اور جائز تصور کیا جاتاہے۔ لہذا، بنائو سنگھار کو پسند کرنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ احتیاط ضروری ہے کہ وہ بنائو سنگھار کی اشیاء کے استعمال میں ہمیشہ اعتدال اور توازن کا خیال رکھیں۔ اسی طرح سے اپنے قدرتی جمال کو محفوظ تر بنایا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button