Abdul Hanan Raja.Column

ماہ ذوالحج، امت مسلمہ اور ہنگامہ طواف

عبدالحنان راجہ
مشیر کی بڑھتی چینی بتا رہی تھی کہ معاملہ سنگین ہے اور پیچیدہ بھی کہ لاکھوں کا اکٹھ، ہر سو انسانی سروں کا سمندر اور اطراف و اکناف عالم سے لاکھوں جمع ایک ہی لباس اور سبھی یک زباں۔ اپنے مشیر خاص کے متغیر رنگ اور پیچ و تاب نے استاد اعظم کو بھی متفکر کیا۔ قریب بلا کر وجہ دریافت کی تو مشیر نے آنکھوں دیکھا احوال بیان کر دیا۔ کہ اب کی بار گزشتہ سال کی نسبت بھی زیادہ۔ حج کے عظیم اجتماع نے اس کی مجلس مشاورت پر سکتہ طاری کر رکھا تھا کہ استاد اعظم ( ابلیس) کا قہقہہ بلند ہوا۔ تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے اتنے عظیم اجتماع سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اقبالؒ نے اپنے الفاظ میں اس کو یوں بیان کیا
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کے رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
اس میں شک نہیں کہ حج بیت اللہ سعادت بھی اور عظیم عبادت بھی مگر کامل یقین، اخلاص اور مقصود کے ساتھ، کہ بیت اللہ کے طواف کی سعادت تو کہیں ملتزم سے لپٹنے کی۔ مقام ابراہیم پہ نوافل تو کہیں صفا و مروہ میں دوڑنا۔ شیطان کو کنکر مارنا بھی ارکان میں شامل اور پھر قربانی کی سنت۔ امیر و غریب کا ایک صف میں کھڑا ہونا ایک پیغام تھا مگر! کبھی سوچا کہ اس سب کے باوجود ابلیسی قوتیں مسلم سے خوفزدہ کیوں نہیں؟۔ لاکھوں کا منظم اجتماع بھی امت مسلمہ کی حالت زار بدلنے میں ناکام، کیوں مسلمان آج بھی محکوم و محروم و مظلوم، جبکہ اللہ نے تو اسے عزت، شرف، عظمت اور اپنا نائب بنایا تھا۔ عبادات ہمارے کردار اور احوال کو کیوں بدل نہیں پا رہیں۔ سجدوں میں لذت کیوں نہیں اور اتنی بڑی افرادی قوت دولت و یقین سے محروم کیوں؟۔ کفر ہمارے اجتماع عظیم سے لرزہ براندام کیوں نہیں !
اقبالؒ کے یہ اشعار ملت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں:
آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشتر تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک
مہہ و مہ انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
جسے ہم مٹھی بھر ملک کہتے ہیں وہ نہ صرف غیر علانیہ ایٹمی طاقت، بلکہ علوم جدید میں اس کا کوئی ثانی نہیں، طب کے شعبہ میں اس کی تحقیق سے دنیا ششدر، سائنس کے میدان میں وہ صف اول میں کھڑا ہے۔ حتی کے تمام مسلم دنیا اس کے بنائے ہوئے مشروبات اور اشیائے خورونوش فخر کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ چند لاکھ پر مشتمل اس ناجائز ریاست کی معیشت کا حجم 300بلین سالانہ کے قریب، کم و بیش دنیا کی تمام عسکری و معاشی قوتیں اس کی زلفوں کی اسیر۔ یہی تو وجہ ہے کہ سوا سو ممالک کی قرارداد کو وہ خاطر میں لائے بغیر غزہ پر مشق ستم جاری اور تمام مسلم دنیا کو خوفزدہ کئے ہوئے ہے۔
کوئی پوچھے تو ان نام نہاد رہنمائوں سے مذہبی ہوں یا سیاسی کہ علم سے بیرغبتی اور فنون میں پس ماندگی، قرضوں کی معیشت، قدرتی وسائل کے بل بوتے پر امارت اور آپس کی چپقلش۔ ان نااہلیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں گے؟۔ رہا ایمانی جذبہ وہ مفقود، فضائے بدر ہم پیدا کر نہیں سکتے تو فرشتے مدد کو کیسے اتریں۔ کیا جھوٹ، دجل، فریب، بدعنوانی، تفرقہ و انتشار، ناانصافی، جہالت، انتہا پسندی کے خصائص کے ساتھ ھم ان کے مقابل، مگر پھر بھی دعوے اور تقریریں ایسی کہ پائوں زمیں پر نہیں ٹکتے۔ حقیقت یہ ہے اور اسے تسلیم کرنا ہو گا کہ ہر شعبہ میں ہم اغیار کے محتاج، میری رائے میں ہمیں عملیت پسندی کی طرف آنا چاہیے۔ معاشی، عسکری میدان میں قوت، امت مسلمہ کا اتحاد اور پھر غیرت ایمانی بھی، یہ سب ہو گا تو کفر لرزہ براندام ہو گا وگرنہ یہ نعرے، جلسے، جلوس سب عوام کو گمراہ کرنے کے طریق۔ جان رکھیے کہ جب سے معاشرہ وجود میں آیا ہے اب تک ایک ہی اصول کارفرما ہے کہ کمزور مذمت کرتے ہیں اور طاقتور مرمت، اور وہ اسرائیل کر رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے جدید تک طاقتور کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فہیم ارشد نے خوب کہا کہ ’ کہ اسلام تلوار سے نہیں کردار سے پھیلا‘۔ اسلام کا نظام عدل اور آقا کریم کے اخلاق حسنہ پر عمل نے ان کے جذبہ ایمانی کو مہمیز دی اور عسکری میدان میں بھی وہ باکمال رہے۔ مگر اب ہمارے افعال، کردار اور افکار کا اسلام سے تعلق نہیں سو ہم مغلوب بھی ہیں مجبور بھی اور محکوم بھی ، بیت المقدس پکار رہا ہے تو غزہ لہولہان، ہر گھر میں صف ماتم، کشمیر میں بربریت کو سات دہائیوں سے زائد ہو چکے۔ لبنان، شام، عراق، افعانستان میں آتش و آہن کی بارش نے لاکھوں مسلمانوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ بہتے لہو، سسکیوں اور آہوں میں طواف و حج جاری۔ ظالم کی مذمت نہ سہی، ہاں مگر اتحاد امت کی دعا تو ہو گی اور کشمیر و فلسطین کی آزادی کی بھی۔ آہ مگر دعائیں بے سود و بے اثر کہ مجبوروں، محکوموں اور مظلوموں کی فریادیں عرش الٰہی ہلا رہی ہیں۔ اب فیصلہ کرنا ہے کہ بے اثر دعائوں، کھوکھلے نعروں، بے فائدہ تقریروں اور دوغلے طرز عمل سے ظالم کو زیر کرنا ہے یا علوم و فنون میں ترقی، تحقیق و تصنیف کے نشتر تیز اور معاشی و عسکری میدان میں قوت بن کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ باقی رہا دنیا بھر کا سب سے بڑا اور منظم اجتماع، تو وہ ہر سال ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا مگر اس سے بدلنا کچھ نہیں کیونکہ !
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماں پر حرام

جواب دیں

Back to top button