روشنیوں کے شہر کراچی سے

فیصل رمضان اعوان
روشنیوں کے شہر کراچی سے ہمارا ناطہ ٹوٹے ہوئے تیرہ برس کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن گزشتہ روز اچانک ہمیں اس شہر میں دوبارہ جانے کا موقع ملا شاید زندگی کے غموں میں اضافہ کے لئے ہم حساس طبیعت والوں کو ایک بارپھر گوشہ تنہائی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے کا ایک موقع میسر آیا ہو کیونکہ اس شہر سے جڑی ہماری یادیں ہی کچھ ایسی ہیں بظاہر بہت خوبصورت یادیں ہیں لیکن آغاز جوانی کی وہ حسین یادیں جب جب یاد آتی ہیں بہت رلاتی ہیں جب ہمارا جہاز جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب پہنچا تو میری نظریں ان گلیوں ان بازاروں ان مکانات اور ان سڑکوں پر جم کررہ گئیں جہاں میں نے بہت کچھ کھو دیا تھا پندرہ سال قبل میری ننھی کلی حفضہ ماڈل کالونی کے انہی بازاروں گلیوں اور رہائشی مکانات کے ارد گرد مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی تھی ایئرپورٹ کی سڑکوں سے ملحقہ اس شہر خاموشاں میں میری ننھی بیٹی حفضہ جو کراچی ایئرپورٹ پر اترتے میرے جہاز کے کچھ ہی فاصلے پر قبرستان میں ایک چھوٹی سی مٹی کی قبر میں ابدی نیند سو رہی ہے مجھے شدت سے یاد آئی اور اس یاد میں میری آنکھوں سے کچھ آنسو میری سفید ہوتی ہوئی مونچھوں کے کونوں سے ہوتے ہوئے میری قمیض پر گر گئے اس شہر میں جہاں میں نے بہت کچھ کھویا تھا تب یہ شہر بہت روشن روشن تھا رات بھر روشنیاں بکھری بکھری نظر آتی تھیں ترقی کا ایک دور تھا صنعتی پہیہ رواں دواں تھا لیکن جس طرح اس شہر نے مجھ سے بہت کچھ چھینا آج تیرہ برس بعد اس کی زبوں حالی پر دلی دکھ ہوا سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھیں ان کھنڈرات پر مشتمل سڑکوں پر بے ہنگم دوڑتی ٹریفک ان گاڑیوں کا آلودگی پھیلاتا دھواں سب کچھ ایسا لگا جیسے وطن عزیز پاکستان کا اقتصادی حب کراچی آج عجیب بے بسی کا سماں بیان کر رہا ہو بالکل اس طرح جیسے اس نے مجھ سے عمر رفتہ میں بہت کچھ چھینا تھا آج اس سے سب کچھ چھن گیا ہو تاریکی میں گھرا میرا کراچی نجانے ایسا کیوں ہوگیا کیا کراچی کے سیاستدانوں اور عوام نے اسے تباہ وبرباد کرنے کا تہیہ کرلیا ہے کسی دور کے اس ترقی کرتے ہوئے اقتصادی حب کو نجانے کیوں کھنڈرات کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے شہر میں جابجا گندگی کے ڈھیر ہیں ایشیائی ممالک کے ایک اہم شہر کا کوئی پرسان حال نہیں سب سیاست کے شیطان ہیں اور خوب سیاست ہورہی ہے تہذیبی اعتبار سے اہمیت کا حامل میرا کراچی آئے روز قتل و غارت کا نشانہ بن رہا ہے سیاست کی زور آزمائی نے سینکڑوں نوجوانوں کو تاریک راہوں میں موت کی نیند سلادیا ہے بحیرہ عرب کے شمالی ساحل پر موجود میرے شہر کراچی کو آخر کس کی نظرکھا گئی ہے مجھے کراچی میں اپنی موجودگی پر ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں میری طرح سب نے یہ عہد کر رکھا ہے اس عروس البلاد سے اپنے بدلنے چکانے کے لئے سب نے اپنا حصہ ڈالنا ہے حالانکہ میری اس شہر سے عداوت بھی بڑی معصومانہ ہے۔
شہر کا قصور اپنی جگہ کچھ اپنوں نے بھی بے وفائی کی تھی تبھی یہ اجڑا اجڑا لگتا ہے خالق کائنات سے دعا ہے کہ میرا کراچی دنیا کا ایک تیز ترین ترقی کرتا ہوا اقتصادی حب ہو ہر سو خوشحالی ہو صنعت رواں دواں ہو ہر طرف اجالا ہو دن دگنی رات چوگنی ترقی میرے شہر کا مقدر ہو
ہم نے سیکھا ہے اذان سحر سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی ہم نے صدا دینی ہے