استاد کی عظمت کو سلام
عبدالرزاق باجوہ
سندھ باب الاسلام میں استاد اللّٰہ رکھیو نندوانی قتل کے بعد سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث شروع ہوئی، جب تصویر دیکھی تو سمجھا کہ ہاتھ میں گن اٹھائے کوئی استاد نہیں ہوسکتا، استاد کے ہاتھ میں تو قلم ہونا چاہیے تاکہ علم کی شمع روشن کرتا رہے۔ تنظیم اساتذہ پاکستان کے مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال، سندھ کے صدر شیخ رئیس احمد منصوری اور پنجاب کے صدر ڈاکٹر ضیاء الرحمان ضیاء اور دیگر اساتذہ رہنمائوں نے جب استاد اللّٰہ رکھیو کے ناحق قتل کی مذمت کی اور تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد سے متصل کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ کے گوٹھ کرم پورکا مکین اللہ رکھیو نندوانی کچے کے علاقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا عزم رکھتا تھا۔ اللہ رکھیو کی پوسٹنگ نصر اللہ خان بجرانی گائوں میں تھی۔ اس علاقے میں عمومی طور پر ڈاکوئوں کو آزادانہ طور پر اپنے اہداف پورا کرنے کی آزادی ہے۔ علم، سماج اور انسان دشمنوں کی غیر انسانی حرکات اور قتل کی دھمکیوں سے بچنے اور اپنے طلباء کو بچانے کیلئے گن کا سہارا لے کر استاد اللّٰہ رکھیو کا سکول انا جانا مجبوری بن چکا تھا۔
نامور کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق ڈاکوئوں نے نصر اللہ بجرانی گاں کو نو گو ایریا قرار دیا ہوا ہے اور اس پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اللہ رکھیو نندوانی نے عہد کیا ہوا تھا کہ وہ سکول جا کر اپنا فریضہ پورا کریں گے۔ اللہ رکھیو کی ایک ویڈیو کی سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ہوئی جس میں وہ موٹر سائیکل پر سوار ڈبل بیرل گن کندھے پر لگائے ہوئے نظر آرہا تھا۔
ٔرکھیو نندوانی کی یہ علم دوستی اور جرات ڈاکوئوں کو پسند نہیں آئی۔ گزشتہ ہفتہ ان ڈاکوئوں نے کندھ کوٹ کے علاقے مگسی کرم پور روڈ پر نندوانی گائوں سے متصل سڑک پر استاد پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور ڈاکو اس وقت تک گولیاں چلاتے رہے کہ اللہ رکھیو نندوانی جان کی بازی ہار گئے۔ اللہ رکھیو کے رشتے داروں نے کندھ کوٹ روڈ پر دھرنا دیا اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ مقتول استاد کے بھائیوں مٹھل نندوانی اور مولا بخش نندوانی نے کہا کہ جو شخص گھر سے نکلتا ہے وہ غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمور، جیکب آباد اور لاڑکانہ کی شاہراہوں پر سفر کرنے والا محفوظ نہیں ہے۔
سندھ کی سول سوسائٹی کے متحرک رکن اور انسانی حقوق کی تنظیم HRCPکی مرکزی کونسل کے رکن امداد کھوسو نے اللہ رکھیو کی بہادری پر خراج تحسین پیش کیا۔ امداد کھوسو نے صورتحال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 8فروری کے انتخابات کے بعد گھوٹکی، شکار پور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد اضلاع میں ڈاکوئوں کی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکو اب ڈبل کیبن گاڑیوں میں نہیں آتے بلکہ موٹر سائیکلوں پر دن کے وقت شہروں اور گائوں میں آتے ہیں اور عام طور پر خواتین اور بچوں کو آسانی سے اغوا کر کے ساتھ لے جاتے ہیں، ان مغویوں کی رہائی کے لیے لاکھوں، کروڑوں روپے طلب کیے جاتے ہیں۔ ڈاکو ان مغویوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں۔ ان وڈیوز میں ان مغویوں پر تشدد کی ویڈیو بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ لواحقین ان کے مطالبے کو پورا کریں۔ اس علاقے کے صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں ۔
امداد کھوسو نے کہا کہ جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور اطراف کے اضلاع کے امیر ہندو خاندانوں میں سے بیشتر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گزشتہ سال کے اوائل میں حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک ٹیم اس علاقے میں بھیجی تھی۔ اس ٹیم کے رکن ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین خضر حبیب کا کہنا ہے کہ پولیس کے افسران نے بتایا تھا کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ ہے اور اس اسلحے میں انٹی ایئر کرافٹ گن بھی شامل ہیں، مگر پولیس کے پاس ناکارہ بکتر بند گاڑیاں اور پرانا اسلحہ ہے، یوں ڈاکوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کچے کے ڈاکو 1سال میں 400افراد اغوا کر چکے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں 2یرغمالی مارے جاچکے ہیں، مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اورکشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو، بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں۔
ڈاکوئوں کے حملے میں 11پولیس اہلکار شہید اور اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پولیس کارروائی میں 23ڈاکو ہلاک اور 160گرفتار کیے گئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35سے 40افراد ڈاکوئوں کی تحویل میں ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکوئوں کی تحویل میں 200سے زائد افراد موجود ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق دونوں ڈویژنز میں ہر ماہ 20سے 30افراد تاوان کے عوض آزاد ہوتے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کی حکومتیں ہر سال ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرتی ہیں۔ دونوں حکومتیں اس آپریشن کے لیی کروڑوں روپے کی گرانٹ جاری کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ ہفتہ، پندرہ دن دونوں صوبوں کی پولیس کچے کے علاقے میں آپریشن کرتی ہے۔ ڈاکوئوں کی گرفتاریوں اور ان کی کمین گاہوں کو تباہ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی تاریخ اور سیاسی خاندانوں کی تاریخ جاننے والے محققین کی یہ رائے ہے کہ بااثر سیاسی خاندان ڈاکوئوں کے سرپرست ہیں۔ ان خاندانوں کو کراچی اور اسلام آباد کی سرپرستی حاصل ہے۔
اللہ رکھیو نندوانی کا قتل تعلیم کا قتل ہے۔ پاکستان اور اطراف کے ممالک کے طلبہ اور اساتذہ اللہ رکھیو کے قتل پر رنجیدہ ہیں مگر اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت کی سرد مہری لوگوں کو مایوس کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے متعلقہ پولیس افسر سے رپورٹ طلب کر کے اپنا فریضہ پورا کیا مگر اصولی طور پر تو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے وزراء کو کندھ کوٹ جاکر اللہ رکھیو کے خاندان کے لواحقین کو یقین دلانا چاہیے اور وزیر داخلہ کو اس وقت تک اس علاقے میں اپنا کیمپ لگانا چاہیے جب تک کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کامیاب نا ہوجائے۔
اللہ رکھیو کا قتل علاقے میں تعلیم کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ کندھ کوٹ کے مکین چاہتے ہیں کہ صدر آصف زرداری کندھ کوٹ آئیں اور ڈاکوئوں کے خلاف حقیقی آپریشن شروع کرائیں تاکہ پھر کوئی استاد قتل نہ ہو۔ اگر استاد اللّٰہ رکھیو نندوانی کے قاتلوں کو سرعام کڑی سزا نہ دی گئی تو سندھ کے اندر کچے کے علاقوں میں تعلیم کا حصول عوام کے ایک خواب بن کر رہ جائے گے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ کے موثر اقدامات کیے جائیں اور خصوصاً اساتذہ اور طلبا کو تعلیمی اداروں میں آزادانہ آنے جانے لیے حفاظتی انتظامات کیے جائیں تاکہ تعلیم کو عام کرکے جہالت کی تاریکی کو ختم کیا جاسکے اور آج کے نوجوان مسقبل میں کچے کے ڈاکو نہ بنیں بلکہ ملک کے مفید ترین شہری بن کر ملک و قوم کی حفاظت کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوجائیں۔