Column

فلاپ مجرا اور گھنگھرو ٹوٹ گئے

تحریر: سیدہ عنبرین
دنیا بھر کے سیاستدان دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں لیکن پاکستانی سیاستدان سچے اور کھرے ہیں ان کے بارے میں اگر کسی کا خیال ہے کہ ان میں بعض بدچلن جھوٹے مکار مطلبی اور اقتدار کے بھوکے ہیں پیسہ خرچ کر کے سیاست میں آتے ہیں تاکہ موجود دولت کو محفوظ بنا سکیں اور اس میں اضافہ کر سکیں تو اس بات میں کوئی صداقت نہیں سب دودھ کے دھلے ہیں اور نیک ہیں، جھوٹ تو کسی نے کبھی بولا ہی نہیں۔ سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ ان کے والد محترم بہت امیر آدمی تھے لیکن انہوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔ وہ بہت امیر آدمی تھے تو پھر ان کی دولت کہاں گئی انہوں نے یہ دولت کن کاموں پر خرچ کی اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی یہ دولت کس پر خرچ کی ایسا بھی کوئی نام سامنے نہیں آیا۔ وہ اوجھڑی کیمپ میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں پھٹنے والے میزائلوں میں سے ایک بے راہ رو میزائل کی زد میں آ گئے اور جاں بحق ہو گئے ان کے ساتھ اس وقت کار میں ان کے ایک صاحبزادے اور شاہد خاقان عباسی کے ایک بھائی موجود تھے وہ بھی اسی میزائل کی نذر ہو گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن سے ایک خاتون انٹرویو کر رہی تھی مولانا بڑے اعتماد کے ساتھ ہر سوال کا جواب دے رہے تھے اچانک انہوں نے مولانا صاحب سے پوچھا جناب یہ فرمایئے آپ کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے۔ مولانا صاحب اس سوال کیلئے تیار نہ تھے کچھ گڑ بڑا گئے پھر پھیکی سی ہنسی سے کہنے لگے میرے ذرائع آمدن تو کچھ بھی نہیں، خاتون اینکر نے دوبارہ پوچھا اگر آپ کے ذرائع آمدن نہیں ہیں تو پھر آپ کے خرچے کیسے پورے ہوتے ہیں۔ مولانا چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ ان کا زمیندارا ہے ان کی جائیداد ہے جس کا کرایہ یا آمدن آتی ہے یا یہ کہ وہ کسی دوست کے سلیپنگ پارٹنر ہیں لیکن انہوں نے جھوٹ بولا بلکہ سچ بتایا اور کہا مجھے غیب سے امداد آتی ہے۔ اینکر نے جاننا چاہا کہ جس غیب سے آپ کو امداد آتی ہے اس کا پتہ ہمیں بھی بتا دیں تو مولانا نے اپنی ہنسی میں اپنی پریشانی کو چھپاتے ہوئے بات کا رخ بدل دیا۔ جناب شہباز شریف نے ایک موقع پر بتایا بلکہ قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ان کے والد ایک غریب کسان تھے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جناب نواز شریف نے متعدد مرتبہ کہا کہ ان کے والد مزدور تھے وہ محنت کش تھے پھر انہوں نے کاروبار شروع کیا اور خوب ترقی کی۔ ایک صحافی نے جناب اسحاق ڈار سے پوچھا آپ نے تو تمام عمر نوکری کی آپ تو کاروباری شخصیت نہیں ہیں پھر آپ کے بچوں کے پاس اتنی دولت کیسے آئی تو انہوں نے جواب دیا، ایک دفعہ میں نے اپنے بیٹے کو چالیس لاکھ روپے قرض دیا تھا اس نے کاروبار کیا اور مزید پیسہ کمایا ان سے دوسرا کیا گیا کہ وہ کون سا کاروبار تھا جس نے ان کے بیٹے کو ارب پتی بنا دیا۔ ڈار صاحب نے جواب دیا ہم نے اپنے بچوں سے کبھی نہیں پوچھا کہ ان پر اللہ نے کتنا کرم کیا ہے۔
جناب نواز شریف اور شہباز شریف سیاست میں آنے سے قبل کاروبار کرتے تھے اور کامیاب کاروباری خاندان کی پہچان رکھتے تھے وہ اپنے رفاہی کاموں کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے تھے ان کے بیٹے بھی کاروبار کی دنیا میں آئے لیکن مریم نواز صاحبہ نے کوئی کاروبار کبھی نہیں کیا، ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے، وہ شادی شدہ تھیں ان کے بچے بھی تھے لیکن انہوں نی بتایا کہ وہ اپنے والد کے پاس رہتی ہیں۔
جن لیڈروں کی پہلی نسلیں غریب تھیں ان کی تیسری یا چوتھی نسل نے خوشحالی دیکھی ہو ان سے بہتر غریب آدمی کے مسائل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ مریم نواز بھی ان سیاستدانوں میں ہیں جن کے دادا ابا غریب آدمی تھے پھر ان پر اللہ کا کرم ہو گیا انہوں نے خود غربت نہیں دیکھی لیکن ان کے خاندان میں اور کئی لوگ غریب ضرور ہوں گے مزید براں انہوں نے اپنے بزرگوں اور رشتہ داروں سے غریبی کی داستانیں ضرور سن رکھی ہوں گی، بس یہی وجہ ہے وہ اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی دل میں غریبوں کا درد رکھتی تھیں ان کا لباس ذوق شوق دیکھ کر کوئی سوچ بھی سکتا ہو گا کہ وہ غریبوں کی حالت دیکھ کر کتنا پریشان ہوتی ہوں گی انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب بنتے میں غریبوں کیلئے کچھ کرنے کا سوچا اور دو چار روز میں ہی اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے ماہ رمضان میں
30ارب روپے کا ریلیف پیکیج تیار کیا اور اسے غریب آدمی کی دہلیز تک پہنچانے کا فیصلہ کیا پھر ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا نواز شریف کی تصویر والے تھیلے میں آٹا، چینی، بیسن، چائے کی پتی گھی اور بہت کچھ ہے۔ پنجاب آدھا پاکستان ہے راولپنڈی سی شروع ہوتا ہے اور رحیم یار خان تک اس کی سرحد ہے۔ اتنے وسیع علاقے میں گھر گھر یہ تھیلا پہنچانا آسان نہ تھا ان کی نظر میں اپنے چچا جان کے زمانے کی سستی روٹی سکیم یقیناً تھی انہوں نے اس زمانے میں پنجاب بھر میں 2روپے کی روٹی فروخت کرنے کیلئے 8ارب روپے کی خطیر رقم سے سستی روٹی سکیم دی جو چند روز چلی اور بری طرح ناکام رہی، پنجاب کے خزانے سے 8ارب روپے نکل گئے یہ روٹی فوٹو سیشن میں نظر آئی یا چند مخصوص شہروں کی مخصوص شہروں کے مخصوص سیاسی حلقوں میں تنوروں پر آٹا بانٹا گیا۔ جاری ماہ رمضان میں نگہبان پیکیج کو ہر غریب کی دہلیز پر پہنچانے کا پروگرام ایک ہفتہ بھی نہ چل سکا اور ٹھپ ہو گیا، پھر یہ پیکیج پرانے طریقوں سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں میڈیا نے دکھایا کہ میلوں لمبی قطاروں میں خواتین صبح سے شام تک لگی نظر آتیں، پنجاب پولیس کے اہلکار ان پر ڈنڈے برساتے، دھکے دیتے اور ٹھوکریں مارتے نظر آئے، اگلے مرحلے میں راز کھلا کہ مافیا نے سازباز کر کے یہ تھیلے ہزاروں کی تعداد میں خردبرد کئے پھر ان تھیلوں کو کھول کر ہر جنس علیحدہ علیحدہ کر کے انہیں بازار میں فروخت کرنے کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر آ گئے۔ ایک کلپ میں دکھایا گیا کہ کچھ افراد ایک ہی تھیلا لے کر پھر رہے ہیں اور مختلف خواتین کے حوالے کرتے ہوئے ان کی ویڈیو بناتے ہیں۔ ویڈیو بنانے کے بعد تھیلا واپس لے لیتے ہیں، غریب عورتیں ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، یہ کھیل تقریباً ہر شہر میں کھیلا گیا، پھر چھاپے مارنے، جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنے اور جرمانے کرنے کی خبریں بھی آئیں لیکن دو تہائی رمضان اسی طرح گزر گیا ضرورت مندوں کے ساتھ کچھ نہ آیا بہتر تھا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لسٹوں کے مطابق ہر خاندان کے اکائونٹ میں 10ہزار روپے ڈال دیئے جاتے، پنجاب حکومت کا پہلا سیاسی مجرا فلاپ ہو گیا اور اسی میں گھنگھرو ٹوٹ گئے مگر دیہاڑی لگ گئی ہے۔

جواب دیں

Back to top button