Column

پاکستان کی خارجہ پالیسی

تحریر : افتخار الحق ملک
کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کے ایک پہلو کا تعلق اس ملک کے اندرونی معاملات سے ہوتا ہے اور دوسرا اس کا پہلو اس ملک کے خارجہ امور سے ہوتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ دوسری قوموں اور ممالک کے ساتھ اس کے گونا گوں تعلقات کی کیا بہترین شکل ہو سکتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسلامی تعلیمات کے مطابق مرتب ہونی چاہیے۔ اسلام مسلم مملکت کے اندرونی امور کے لیے باہمی محبت بھائی چارے پر زور دیتا ہے، بلکہ اپنے عالمی تعلقات کو خوشگوار اور پرامن بنانے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ اسلامی مملکت کی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بہت اہمیت دی گئی ہے، دنیا میں انسانی برادری کی سطح پر اسلامی فکر کی حامل خارجہ پالیسی یقینا عالمی امن کے فروغ میں قابل ستائش کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق دنیا کے ممالک کے ساتھ پرامن، خوشگوار، دوستانہ مراسم رکھنے چاہئیں، بالخصوص اسلامی ممالک کے ساتھ پرامن خوشگوار اور دوستانہ برادرانہ مضبوط تعلقات رکھنے چاہئیں، جیسا کہ قران پاک میں آیا ہے بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ مثالی اور آفاقی تصور اخوت رنگ، نسل، قبیلے، زبان، جغرافیائی حدود اور امتیازات سے بالاتر ہے۔ خدا کرے ہم زمانہ حاضر کے نازک حالات کا احساس کرتے ہوئے اسلامی اخوت میں منسلک ہو جائیں۔ اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی میں عالمی امن کے قیام کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اسلام سلامتی امن کا دین ہے۔ یہ دنیا میں کسی قسم کے فساد میں شریک نہیں ہوتا یہ نہ صرف اپنے ماننے والوں کو باطنی اور خارجی امن دیتا ہے بلکہ یہ تمام انسانیت کی ہدایت فلاح اور سلامتی کا بی حامی ہے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں کسی انسان یا قوم کو یہ حق نہیں بنتا کہ وہ فتنہ فساد کی فضا پیدا کرے۔ عالمی امن اور سکون کو غارت کرے، قرآن نے فتنہ، فساد، بدامنی، ظلم، نفرت انگیز اعمال پر متعدد آیات میں پرزور مذمت کر کے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ اسلام دنیا میں امن کا علمبردار ہے، یہ دنیا سے ہر قسم کی دشمنی دہشت گردی، فتنہ پروری کو ختم کر کے انسانی عظمت، اتحاد، اخوت، باہمی رواداری اور نیکی کو فروغ دینے کا درس دیتا ہے۔ بین الاقوامی معاملات اور تنازعات میں مسلمانوں کو حق کا ساتھ دینے اور باطل کی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ امن پسندی اور انسانی اخوت و اتحاد کے اصول پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔ اسلام عالم امن کو برباد کرنے والی ہر قوت اور ہر پالیسی کی نہ صرف زبانی طور پر شدید مذمت کرتا ہے بلکہ یہ اس بدی کو قوت کے ذریعے روکنے اور ختم کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ کمزور اور نہتے لوگوں کو ہدف ستم بنانے والوں کی ہوس اور لوٹ کھسوٹ بھی فساد عالم کا ذریعہ بنتی ہے، اس کو نہ روکنا اور بے بس اور مظلوم انسانوں کی مدد نہ کرنا اسلامی نظریہ امن عالم سے انحراف کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی امن کے قیام کی خاطر اسلامی مملکت کے دفاع ملکی اور ملی مفادات کے تحفظ اور قومی خودداری کی پاسبانی کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ عدل کی حمایت کرتے ہوئے اسلام نے تمام معاملات اور تنازعات کے لیے منصفانہ فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی معاشرے میں ناچاکی نا انصافی فتنہ و فساد اور جنگ و جدل کی کیفیت پیدا ہو کر امن و امان کو غارت نہ کرے۔ گزشتہ دنوں میں پاکستان اور اسلامی برادر ملک ایران کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے اور نوبت ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ گئی اور اس موقع پر اس افسوسناک تنازع میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں، اسی طرح آج کل پاکستان اور برادر اسلامی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں، یہ افسوس ناک واقعات ہماری ناکام ناقص خارجہ پالیسی کا ثبوت دیتے ہیں، اس وقت ایک تجربہ کار وزیر خارجہ کی ضرورت ہے جو کہ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے، نا تجربہ کار شخص کو وزیر خارجہ لگایا جائے گا تو حالات ایسے ہی ہوں گے اس وقت ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو کہ ہمارے ملک اور قوم کے مفاد میں ہو، نہ کہ عالمی قوتوں کے مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی، اگر یورپی ممالک آپس میں جنگوں کے بعد اپنے اقتصادی سیاسی اور دفاعی مفادات کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کیوں امن اور دوستی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات استوار کریں۔ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، ایک دوسرے کی شکایات دور کی جائیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی صرف اور صرف اپنے ملک اور قوم کے مفاد میں بنانی چاہیے۔ ہمیں اپنے برادر اسلامی ملک ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے وفود کا تبادلہ کرنا چاہیے تاکہ جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو سکیں۔ اسی طرح چائنہ جو کہ ہمارا بہت پرانا اور ایک بہت سچا دوست ملک ہے، کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ چائنہ کے ساتھ ہمیں اپنے تعلقات کے حوالے سے کسی بیرونی قوت کے دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ مختلف حکومتوں میں خارجہ پالیسی تبدیل ہوتی رہی، پاکستان کو نقصان بھی ہوا موجودہ حکومت تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی متمنی ہے اور چین کے ساتھ رکے ہوئے منصوبوں کو بھی جلد مکمل کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کو خصوصی طور پر مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح بنیادوں پر آگے لے کر چلنا چاہیے تاکہ مسلم دنیا کے مسائل حل ہو سکیں اور مسلمانوں پر جو مشکلات اور مصائب ہیں وہ بھی دور ہو سکیں۔ خارجہ پالیسی کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور پاک محمدؐ اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں خارجہ پالیسی بناتے وقت ضروری تقاضے پورے کیے جاتے تھے۔ ماہرین خارجہ امور کی ایک ٹیم تھی، جس کی وجہ سے اسلام دور دور تک پھیلا، اب بھی ہمیں اسلامی خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی تاکہ مشکلات سے نجات پا سکیں۔

جواب دیں

Back to top button