Column

مسلم امہ کی حالت زار

تحریر : افتخار الحق ملک
عرب ممالک کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ مسلمان باہمی اتحاد کے فقدان عرب و عجم کا تنازع عرب قومیت وطنیت ملوکیت یہود کی ریشہ دوانیوں مغربی تہذیب و تمدن کی پیروی عیش پرستی دنیا کی بڑی طاقتوں کی نظریاتی کشمکش اور جذبہ جہاد سے لاپرواہی کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں مال و دولت کی کثرت نے ان کے اندر لا تعداد برائیاں پیدا کر دی ہیں، دنیاوی عیش و عشرت کی چکا چوند نے انہیں اپنا غلام بنا رکھا ہے، ان کے دلوں میں موت کا خوف پیدا کر کے انہیں حریت فکر اور جذبہ جہاد سے بیگانہ کر دیا گیا ہے، دولت کی فراوانی کے باوجود وہ غیروں کی سیاسی اقتصادی اور فوجی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہو سکے، عیش و عشرت پر روپیہ صرف کرنے کی بجائے اگر وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے فوجی ساز و سامان خود بنانے لگتے تو آج انہیں اغیار کے سامان حرب پر بھروسہ نہ کرنا پڑتا۔ عرب ممالک کی موجودہ علمی اور سیاسی کمزوریوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ چند صدیوں بیشتر یہی لوگ مختلف ایجادات کے موجد اور یورپی اقوام کے استاد تھے۔ موجودہ زبوں حالی کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ عربوں پر اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار احسانات ہیں، پیغمبر اسلامؐ نے عرب کے مختلف قبائل کو شیر و شکر کیا، آپؐ ہی کی بدولت انہیں علم و حکمت اور آزادی حاصل ہوئی، اسلام کی بدولت وہ عظیم و شان تہذیب و تمدن نظم و ضبط وحدت اور حکومت کے مالک بن گئے لیکن افسوس یہ ہے کہ موجودہ دور کے عرب ملت اسلامیہ کے رشتہ وحدت کو توڑ کر مختلف قوموں میں بٹ گئے ہیں، وہ اسلامی تعلیمات کی بجائے مغربیت کے پرستار ہو کر گونا گوں مشکلات میں پھنس چکے ہیں۔ مسلمانوں اور عربوں کی نجات کا راز اسلامی وحدت اسلامی تعلیمات کی پیروی اسلامی طرز جمہوریت علوم فنون میں ترقی اور یورپی تہذیب سے بیزاری میں ہے۔ بدقسمتی سے عرب ممالک کفار کے جال میں پھنس چکے ہیں وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ غزہ کے حوالے سے مسلمان ممالک کی خاموشی اور بے حسی انتہائی شرمناک ہے۔ اپنی ذات اور خدا پر بھروسہ نہ کرنے والے ہمیشہ دوسروں کے محتاج اور غلام بن جایا کرتے ہیں۔ آج کل بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول اپنایا جاتا ہے، معاشی کمزوری بی بالاخر قوموں کو زندگی کی اعلیٰ صفات سے محروم کرتی چلی جاتی ہے، ہماری موجودہ اقتصادی زبوں حالی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے اکثر حکمرانوں نے فلاح عامہ کی بجائے زیادہ تر غیر ملکی طاقتوں اور ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھا، مسلمان ممالک کی بے حسی کی وجہ سے غزہ میں بچوں پر مِظالم اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم مشکلات مبتلا ہو رہے ہیں، مسلمان اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول چکے ہیں اور مفاداتی جنگ میں ہیں۔
اتحاد و اتفاق ہی موجودہ دور میں مسلمانوں کو نکال سکتا ہے، پاکستان کی حکومت بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ، اور عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی ہے۔ غزہ جل رہا ہے، وہاں مسلمان بے یارو مدد گار ہمیں پکار رہے ہیں، لیکن ہم گونگے ہیں، بہرے ہیں اور ہمارے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کی حالت زار انتہائی مخدوش ہے اور معاشی لحاظ سے مسلمان ملک دوسروں کے محتاج ہیں، اگر مسلمانوں کو مسائل و مشکلات سے نکالنا ہے تو ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگیاں بسر کرنی ہوں گی۔

جواب دیں

Back to top button