بھائیاں دی دوسری جوڑی قوم کو مبارک

سیدہ عنبرین
ملک میں عام انتخابات کے بعد ریوڑیاں بانٹنے کا موسم آتا ہے اس مرتبہ ریوڑیوں کے ساتھ بطور بونس بتاشے بھی بٹ رہے ہیں ملک کی ایک سیاسی جماعت جو لندن پلان کے تحت حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اس فرسودہ خیال سے باہر نہیں نکل سکی کہ رائے ونڈ ہی لاہور ہے، لاہور ہی سارا پنجاب ہے اور پنجاب ہی پورا پاکستان ہے بس اس کی نظر عنایت رائے ونڈ کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھنے والوں لاہور کو پورا پنجاب سمجھنے والوں اور پنجاب کو پورا پاکستان سمجھنے والوں پر ہے اس کے علاوہ باقی سب کیڑے مکوڑے ہیں جو الیکشن جیت کر آئے ہیں جن کا معاشرے میں مقام ہے جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں جنہیں یقین ہے حساب قبر بھی ہو گا اور وہاں منکر نکیر بھی آئیں گے ان کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں۔ جناب شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کوئی گنجائش باقی نہ تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا تعلق ان کے خاندان اور رائے ونڈ پیلس سے ہو وزیراعظم پاکستان سینٹرل پنجاب سے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ جنوبی پنجاب کو دیا جا سکتا تھا مگر نہیں دیا گیا سوچ وہی ہے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ وزیراعلیٰ جنوبی پنجاب سے لیا جاتا تو مسلم لیگ ( ن) ان علاقوں میں مضبوط ہوتی لیکن پھر اس سوچ کے اسیر اپنے علاوہ کسی کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب اپنے ہی شہر اپنے ہی گھر میں رکھنے کے بعد تسلی نہ ہوئی لہٰذا صوبائی حکومت میں بھی لاہور کو سب سے زیادہ جگہ دینا ضروری سمجھا گیا۔ بلال یاسین بھی اسی خاندان سے ہیں تعلق لاہور سے ہے۔ عظمیٰ بخاری کا تعلق لاہور سے ہے، خواجہ عمران نذیر بھی لاہور سے ہیں، خواجہ سلمان رفیق کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن بھی لاہور سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بزرگ بھی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ مرکزی حکومت میں عطا تارڑ کا تعلق لاہور سے ہے، آپ سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ کے خاندان سے ہیں ان کی خدمات کے صلے میں نواز لیگ ان کی کئی نسلوں کی ممنون اور ان پر مہربان رہے گی۔ اسحاق ڈار صاحب، نواز شریف صاحب کے سمدھی ہیں ان کی یہی کوالیفکیشن سب پر بھاری ہے وہ کتنے قابل ہیں، پاکستان کی اقتصادی حالت آج جہاں پہنچی ہے وہ اس کے بڑے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں وہ جس مضمون کے ماہر ہونے کا کلیم کرتے تھے اس میں بری طرح فیل ہوئے وہ قرضے لینے میں کبھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے آج ملک پر کئی ہزار ارب روپے کے قرضے چڑھا گئے اب جبکہ انہیں کہیں سے ریجیکٹ کیا گیا تو انہیں ایک اور اہم وزارت دینے کا فیصلہ ہوا ہے اس وزارت کے ابجد سے بھی وہ واقف نہیں ہیں، اہم ترین منصب اور وزارتوں پر لاہور سے دس شخصیات براجمان ہو چکی ہیں ابھی مزید پانچ افراد کو صوبائی اور مرکزی حکومت میں جگہ دی جائے گی۔ اہم منصب کا حق دار ہونے کیلئے کشمیری برادری سے تعلق بھی ضروری ہے دوسرے نمبر پر آرائیں برادری ہے اس کے بعد کون کون یہاں کتنی صدیوں سے آباد ہے کسی کی کوئی حیثیت نہیں، وہ سب کیڑوں مکوڑوں کی فہرست میں سمجھے جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال ہوا کہ مہنگائی نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ جواب ملا مہنگائی ختم کرنے کیلئے کوئی میکنزم موجود نہیں۔ چالیس برس سے کسی نہ کسی شکل میں حکومت کرنے والے خاندان کو سمجھ نہیں آ سکی کہ مہنگائی ختم کیسے کی جا سکتی ہے، جس کا آسان ترین طریقہ موجود ہے، گراں فروشوں اور ذخیرہ اندازوں کو پانچ برس کیلئے جیل بھیج دیں انہیں دس، دس لاکھ روپیہ جرمانہ کم از کم کریں، گراں فروشی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہو جائے گا، لائن میں لگ کر رمضان بازار میں چھاپہ نہیں مارا جاتا، دکاندار سے بھائو نہیں پوچھے جاتے اس کا طریقہ یہ ہے کہ خود گاڑی میں بیٹھی رہیں دو عام خواتین اور عام مردوں کو کچھ خریدنے کیلئے بھیجیں وہ حقیقت آ کر بتائیں گے بس پھر نصیحتیں کرنے نہ پہنچیں عملہ لے کر جائیں اور گرفتاری کا حکم دیں۔
المیہ یہ ہے کہ حکمران کے چھاپے سے قبل اس کی اطلاع پہنچ چکی ہوتی ہے ایک اور شہر کے اچانک دورے کا حال کچھ یوں ہے وزیراعلیٰ نے ایک جگہ گاڑی رکوائی۔ مسلم لیگی کارکن گاڑی کے قریب آ گئے اور کہنے لگے بس آپ ہی سب کچھ ہیں اور نواز لیگ ہی سب کچھ ہے پھر انہوں نے زندہ باد کے نعرے لگانے وزیراعلیٰ نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا میں آج یہاں آ رہی ہوں کارکنوں نے بتایا ہمیں اطلاع دی گئی تھی ہم صبح سے آپ کے منتظر تھے۔
لاہور کو پیرس بنانا ترجیح اول قرار پائی ہے، بیوروکریسی سے سفارشات مانگی گئی ہیں سب سے پہلے کوڑا اٹھانے کے انتظامات کئے جائیں گے اور ہر گھر پر کوڑا ٹیکس لگانے کی تیاریاں ہیں اس سے قبل جناب شہباز شریف کے زمانے میں طے پایا تھا کہ لاہور اور دیگر شہروں کا کوڑا اٹھانا ایٹم بم بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے پاکستان پنجاب اور بالخصوص لاہور اپنے وسائل سے یہ کٹھن کام انجام نہیں دے سکتا۔ کسی زمانے میں لاہور میونسپل کارپوریشن کا عملہ یہ کام کرتا تھا لاہور بے حد صاف ستھرا شہر تھا۔ اس کے پر کاٹے گئے۔ شہباز شریف صاحب نے کوڑا اٹھانے کیلئے ایک غیر ملکی فرم سے رابطے کا حکم دیا پھر برادر ملک کی ایک کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا گیا۔ عوضانہ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے تھا۔ اصل لاہور اور اہل پنجاب کو ذمہ دار ادارہ سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتا۔ اپنا سکیورٹی گارڈ رکھنا مجبوری ہے۔ سرکاری سکولوں میں ڈھنگ کی تعلیم نہیں ملتی۔ بچوں کو پرائیوٹ سکول میں بھیجنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں دوا نہیں ملتی۔ جعلی ٹیسٹ تک ڈال دئیے جاتے ہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانا مجبوری ٹھہری۔ اب یہ ہسپتال انڈسٹری بن چکے ہیں، کدھر جائیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کوڑے کو ٹھکانے لگانا تو سب سے مشکل کام ہے۔ پس کوڑا ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار رہیں۔
مادام چیف منسٹر کی خدمت میں گزارش ہے بغیر ایک آدمی بھرتی کئے اور بغیر ایک روپیہ خرچ کئے صرف لاہور ہی نہیں پورے پنجاب کا ہی نہیں پورے پاکستان کا کوڑا اٹھانے کا انتظام ہو سکتا ہے۔ آپ فیصلہ تو فرمائیں کہ یہ کام عوام کو سہولت دینے کیلئے کرنا ہے پورا منصوبہ آپ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ شرط فقط ایک ہے منصوبے کی تفصیلات پیش کرنے کے موقع پر آپ کے سیاسی سماجی اور سرکاری دست راست ٹانگ اڑانے کیلئے موجود نہ ہوں جب آپ منصوبے کی تفصیلات جان لیں اور مطمئن ہو جائیں کہ یہ قابل عمل ہے۔ تو پھر اس پر عمل درآمد کا حکم دیں اگر فیصلہ ہوچکا ہے کہ یہ کام کسی اور ملکی یا غیر ملکی کمپنی سے کروڑوں روپے دے کر کرانا ہے تو بات دیگر ہے، چھ برس بعد حسن نواز، حسین نواز پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ بھائیوں کو بہن کی چیف منسٹری اور بہن کو کاروباری بھائیوں کی آمد مبارک، بھائیاں دی دوسری جوڑی قوم کو مبارک۔