برکتاں ماہ رمضان دیاں

صفدر علی حیدری
اس مہینے کی عظمت کا اس سے بڑھ کر اور حوالہ کیا ہو کہ یہ مہینہ مہینوں کا سردار، اس میں بدر کا معرکہ سر ہوا جو ہے غزوات کا سردار۔ اس میں جو کتاب نازل ہوئی، وہ ہے الہامی کتابوں کی سردار۔ جس رات وہ نازل ہوئی، وہ رات ہے راتوں کی سردار اور جس پر یہ نازل ہوئی وہ ہے تمام انبیائٌ و رسل کا سردارؐ۔
اس مہینے میں سانس سانس عبادت ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات۔ اس آدمی پر جبرائیلٌ نے لعنت کی اور جناب رسالت مآبؐ نے آمین فرمائی کہ جو اس مہینے کا پائے اور اپنے گناہ بخشوا نہ سکے۔
یہ مہینا سچ میں نیکوں کی بہار اور برکتوں ، سعادتوں کا اوج کمال ہے۔ گناہ کار سے گناہ گار انسان بھی اس مہینے مسجد کا رخ کر لیتا ہے۔ اعمال صالح بجا لانے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔
یہ تو اس کا روحانی پہلو ہو گیا جس سے شاید ہی کوئی مسلمان نا واقف ہو۔ لیکن اس مہینے کا ایک اور پہلو بھی کس کا تذکرہ مقصود ہے مگر افسوس وہ پہلو ہرگز خوش کن نہیں ہے۔ میرا اشارہ گراں فروشی کی طرف ہے۔ رمضان کے آتے ہی مہنگائی کا سیلاب آ جاتا ہے۔ خصوصاً اشیاء خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ اور یہ سب اضافہ مصنوعی ہوتا ہے۔ روٹین میں جو چیز جس قیمت پر بک رہی ہوتی ہے ، ماہ رمضان آتے ہی اس کے نرخ دو گنا تین گنا تک بڑھ جاتے ہیں۔ پھل اور سبزیاں قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ دیگر اشیاء مثلاً ڈالیں، گوشت وغیرہ کے قیمتوں میں بھی من چاہا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ افسوس یہ اب مسلمان کرتے ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں تو حد ہی کر دی جاتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غیر اسلامی ممالک میں بجائے چیزوں کے مہنگا ہونے کے، رمضان آفرز شروع ہو جاتی ہیں اور اشیا انتہائی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو صاف ہے ہم لوگ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں سو قیمتوں میں من مانی کر کے ہم اپنی جیبیں بھر لیا کرتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ سسٹم کی کمزوری ہے۔ ہمارے ادارے اس حد تک لاغر ہیں کہ اپنی آئینی زمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں۔ مارکیٹ سے متعلقہ اداروں کا دکان داروں پر کوئی کنٹرول نہیں ۔ ایک ہی شہر میں قیمتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ سرکاری نرخ نمایاں جگہ پر اول تو آویزاں نہیں کیے جاتے۔ آگے کر بھی دئیے جائیں تو ان نرخوں پر چیز ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگی اور غیر معیاری سامان سے دکانیں بھری پڑی ہیں۔ لوگ ناقص سامان مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔
اس صورت حال کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جانے کب ہمارے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ایمان داری سے کام شروع کریں گے۔ فوج سے عدالت تک اور ایوان سے لے کر میونسپل کارپوریشن تک ہر جگہ افراد موجود اور مضبوط ہیں مگر ادارے۔۔۔ وہ تو کہیں دکھائی دیتے ہیں نہ ان کی عمل داری۔ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہر جگہ قابض ہے اور اپنے پیٹ مال حرام سے بھر رہے ہیں۔
ہم گراں فروشی کی طرف پلٹتے ہیں۔ اگر مارکیٹ کمیٹیاں متحرک ہو۔ ان میں ایمان دار لوگ متعین ہوں۔ حکومتی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہو۔ گراں فروشوں اور ناقص مال بیچنے والوں کو سزائیں دیں جائیں اور ان پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہم مصنوعات کی مصنوعی قیمتوں کو رائج نہ ہونے دیں۔
آخر میں اسی حوالے سے اپنا ایک افسانچہ پیش خدمت ہے
جے دم جیسںوں یاد کریسوں
صفدر علی حیدری
افسانچہ۔۔۔
یہ لو نیک یہ سنبھال کے رکھ لو۔ پرسوں لے لوں گا۔ ’’ستائس ہے ناں ‘‘ شوہر نے خاکی لفافہ آگے بڑھایا ۔ ’’ یہ ۔۔ یہ کیا ہے‘‘ ۔۔۔ اس نے خاکی لفافے کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ پیسے ہیں اور کیا ہے ۔۔ پورا ایک لاکھ بیس روپیہ سکہ رائج الوقت ۔۔۔ پرسوں غریبوں کو زکوٰۃ دیں گے ’’ ہیں‘‘ ۔۔۔ ایک لاکھ بیس ہزار ۔۔ پچھلے سال تو ساٹھ ہزار روپے دئیے تھے ۔۔۔۔ اور اس سال تو کام دھندہ بھی مندا رہا ہے۔ آپ ہی کہتے تھے ’’ یہ ساری رمضان کی برکت ہے ۔۔ پورا سال ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ مگر اس ایک مہینے میں کام اتنا چلا اور اتنی برکت پڑی کہ وارے نیارے ہو گئے ۔۔۔ لوگ اس مہینے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔۔۔ اور منہ مانگے پیسے دیتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں سارا سال رمضان ہو‘‘۔۔۔ پھر وہ گنگنانے لگا ’’ جے دم جیسوں یاد کریسوں برکتاں ماہ رمضان دیاں ‘‘۔۔۔