کہیں دیر نہ ہوجائے
روہیل اکبر
مسلم لیگ ن کے کھاتہ میں تین بڑے پراجیکٹ موٹروے،میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین ہیں جن کے نام پر عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں اور ان میں لاہور کے دو پراجیکٹ میٹرو بس اور اورنج لائن کی تکمیل میں جس شخصیت کا سب سے اہم کردار ہے وہ خواجہ احمد حسان ہیں جنہیں نہ صرف ن لیگ میں بلکہ باقی بھی تمام سیاسی جماعتوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس وقت پورے ملک میں لاہور کے انہی دو منصوبوں کی دھوم ہے یہ دونوں منصوبے وقت پر مکمل کرنے میں بلاشبہ خواجہ احمد حسان کا ہی کمال ہے مزے کی بات یہ ہے کہ میٹرو بس منصوبہ کی تکمیل کے بعد میاں شہباز شریف نے اورنج لائن منصوبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی وہ اس لیے کہ انہیں خواجہ صاحب کی ایمانداری اور کام کی تیزی پر مکمل یقین تھا جبکہ میٹرو بس منصوبہ پر میاں شہباز شریف آئے روز پہنچے ہوتے تھے اور انہوں نے خواجہ صاحب کے کام کی رفتار دیکھ کر اورنج لائن منصوبہ مکمل انہی کے حوالے کررکھا تھا اور آج اورنج لائن نہ صرف لاہور کے شہریوں کے لیے ایک خوبصورت،دلکش،آرام دہ،تیز تر اور سستے سفر کابہترین منصوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور کے حسن میں بھی دل کو موہ لینے والا اضافہ ہی اگر یہ منصوبے خواجہ احمد حسان کی زیر نگرانی نہ ہوتے تو شائد آج بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچتے کیونکہ میٹرو بس کی تکمیل کے دوران بہت سے قانونی معاملات درپیش تھے لوگ عدالتوں میں بھی گئے لیکن خواجہ صاحب کے حسن اخلاق اور پیار بھرے لہجے نے معاملات عدالتوں کے باہر ہی نمٹا دیے اور پھر جب اورنج لائن کی تکمیل کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہو تو اس راستے میں 35سو خاندان آئے جنہوں نے نہ صرف خوشی سے اپنی جگہ خواجہ صاحب کے حوالے کردی بلکہ جو معاوضہ بھی انہوں نے دیا وہ قبول کرلیا یوں اورنج لائن بغیر کسی قانونی پیچیدگیوں کے مکمل ہوگئی خواجہ احمد حسان اورنج لائن ٹرین کے منصوبہ کے دوران ہفتہ میں 35سے زائد میٹنگ کیا کرتے تھے ان کی اسی انتھک کوششوں سے آج یہ خوبصورت منصوبہ دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثال بنا ہوا ہے خواجہ احمد حسان ایچیسن کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں طلبہ سیاست سے عوامی سیاست تک انکے نامہ اعمال میں بے شمار فلاحی کام ہیں جب مسلم لیگ اقتدار میں نہیں تھی تب بھی ان کا دفتر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آج بھی چیئرنگ کراس میں ان کا دفتر عوامی خدمت کا مرکز بنا ہوا ہے مریم نواز نے پنجاب میں اپنی کابینہ تشکیل دیدی ہی مرکز میں شہباز شریف کی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے اب خواجہ صاحب کو میاں شہباز شریف اسلام آباد اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی اہم ذمہ داری دیدیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی زیادہ ضرورت پنجاب میں ہے ایک تو وہ پنجاب کو سمجھتے ہیں اور دوسرا پنجاب کی عوام بھی ان سے پیار کرتی ہے خواجہ احمد حسان شریف فیملی کے سب سے زیادہ خیر خواہ بھی ہیں وہ سمجھتے ہیں ہیں میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز عوام کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے اور اس بار وہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکال کر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بھی کنٹرول کرینگے خواجہ احمد حسان چونکہ عوامی آدمی ہیں اور عام لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے انہیں محسوس بھی کرتے ہیں اسی لیے وہ ہر نظریے کے لوگوں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں انہوں نے لاہور کے جن دو منصوبوں میٹرو بس اور اورنج لائن کو خوبصورتی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا انکا تفصیلی تعارف تو ممکن نہیں لیکن مختصر بتا دیتا ہوں لاہور میٹروبس ایک بس ریپڈ ٹرانزٹ سروس ہے جسے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی لوکل بس سروس کے ساتھ ضم کیا گیا جو پورے لاہور میں بغیر کسی رکاوٹ کے ٹرانزٹ سروس فراہم کرتی ہے۔ لاہور میٹروبس کا روٹ گجومتہ سے شاہدرہ تک 27کلومیٹر طویل ہے جس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ترکی کے نائب وزیر اعظم بیکر بوزداگ کے ہمراہ 11فروری 2013 و کیا تھا لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی 1984میں لاہور کی ٹریفک کی صورتحال کو کم کرنے اور بس سروس کو بہتر بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ایل ٹی سی نے دسمبر 2009میں لاہور میں سفر کی تمام تر ذمہ داریاں حاصل کیں۔ 650بسوں کا بی آر ٹی ایس کا بیڑا متعارف کرایا گیا۔ اسے لاہور بس کمپنی کا نام دیا گیا۔ تاہم، بی آر ٹی ایس کے پاس مخصوص لین نہیں تھیں اور انہیں سڑکوں کو باقاعدہ ٹریفک کے ساتھ بانٹنا پڑتا تھا جس میں دائیں طرف جانے کا کوئی استحقاق نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا نظام نکلا جو صرف نام کا بی آر ٹی ایس تھا۔ 20سال کی بحث کے بعد، لاہور میٹرو، جو پہلی بار 1991میں تجویز کی گئی تھی، بس ٹرانزٹ سسٹم کے حق میں ترک کر دی گئی۔ میٹرو بس کا تعمیراتی منصوبہ مارچ 2012میں شروع ہو جو پنجاب اور ترک حکومت کے درمیان تعاون کے ذریعے تعمیر، آپریٹ اور منتقلی کی بنیاد پر بنایا گیا یہ پاکستان کا پہلا بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے۔ لاہور میٹرو بس سروس اس وقت 66بسوں کا بیڑا چلا رہا ہے جو 2013میں سات سالہ معاہدے کے بعد البیرک پلیٹ فارم ٹورزم نے تعینات کی تھیں اس روٹ پر بسوں کی اوسط رفتار 26کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جس کا کرایہ منزل سے قطع نظر 30روپے ہے میٹرو بس کی یومیہ سواریوں کی تعداد 180000سے تجاوز کر چکی ہے تقریبا 10ہزار مسافر فی گھنٹہ فی سمت سفر کرتے ہیں اسٹیشنوں میں موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کے لیے پارکنگ کی جگہیں بھی میٹرو بس ٹرمینلز پر دو قسم کے ٹکٹنگ سسٹم موجود ہیں پنجاب حکومت نے اپریل 2015میں لاہور میٹروبس کی توسیع کی منظوری دی تھی اور موجودہ روٹ پر 15کلومیٹر کا ٹریک بننا تھا جو شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک 10کلومیٹر جبکہ گجومتہ سے کاہنہ تک 5کلومیٹر تک تھا جو ابھی تک نہیں بن سکا پنجاب حکومت نے14۔2013کے ترقیاتی پروگرام میں راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان کے لیے اسی طرح کے میٹروبس منصوبے تجویز کیے تھے اسلام آباد/راولپنڈی میں میٹرو بس کا افتتاح 4جون 2015کو ہوا جبکہ ملتان میٹروبس کا افتتاح 24جنوری 2017کو وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا جبکہ اورنج لائن لاہور پاکستان میں ایک خودکار ریپڈ ٹرانزٹ لائن ہے جوبغیر ڈرائیور خور کارطریقے سے ڈیرہ گجراں سے علی ٹائون کے درمیان چلتی ہے یہ اورنج لائن لاہور میٹرو سسٹم کا حصہ ہے جو 27.1کلومیٹر (16.8میل) تک پھیلی ہوئی ہے اورنج لائن ٹرین25.4کلومیٹر (15.8میل) زمین سے اوپر جبکہ 1.72کلومیٹر (1.1میل) زیر زمین ہے جس میں 26سٹیشن ہیں اس ٹرین پر روزانہ تقریبا 2لاکھ شہری سفر کرتے ہیں یہ منصوبہ مئی 2014میں پاکستان اور چین کی حکومتوں کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اس منصوبے کے لیے فنانسنگ دسمبر 2015میں اس وقت حاصل ہوئی جب چین کے ایگزم بینک نے اس منصوبے کے لیے $1.55بلین کا نرم قرض فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اس منصوبے پر تعمیراتی کام اکتوبر 2015میں شروع ہوا تھا۔ CRRC Zhuzhouلوکوموٹیو نے 16مئی 2017کو پہلی ٹرین چلا دی تھی جبکہ ٹیسٹنگ اور ٹرائل رن مارچ 2018 میں شروع کیا اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی موجود تھے جبکہ بعد میں 25اکتوبر 2020کو اورنج لائن ٹرین کا افتتاح اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کیا تھا۔ اس پورے روٹ میں انارکلی اور جی پی او سٹیشنز زیر زمین ہیں باقی 24سطح زمین سے بلند ہیں ان سٹیشنوں کی چوڑائی 22.5میٹر ہے جبکہ انار کلی سٹیشن کی چوڑائی 16میٹر ہے اور جی پی او سٹیشن کی چوڑائی49.5میٹر ہے تمام اسٹیشن 102 میٹر لمبے ہیں سوائے انار کلی اور جی پی او سٹیشن کے جن کی بالترتیب لمبائی 121.5اور 161.6میٹر ہیں تمام سٹیشنوں میں پلیٹ فارم اور ٹرینوں کے درمیان خودکار دروازے ہیں اورنج لائن ٹرین پانچ ویگنوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک میں 4دروازے استعمال کیے گئے ہیں جس کی باڈی سٹینلیس سٹیل ہے اور ایل ای ڈی لائٹنگ سے روشن ہے ہر کار میں 200 افراد کے بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی گنجائش ہے جس کی اوسط کثافت 5 افراد فی مربع میٹر ہے ان میں سے 20%مسافر بیٹھ کر اور 80%کھڑے ہوکر سفر کر سکتے ہیں سسٹم میں 135 کاروں کے ساتھ کل 27 ٹرینیں شامل ہیں یہ ٹرینیں 750وولٹ کی تھرڈ ریل سے چلتی ہیں یہ دونوں شاندار منصوبے خواجہ احمد حسان کی شب وروز کی محنت سے پایہ تکمیل تک پہنچے اس لیے مریم نواز خواجہ احمد حسان کو پنجاب میں ہی رکھ لیں تاکہ وہ اپنی عوامی خدمت کا سلسلہ وہی سے جوڑ سکیں جہاں سے ٹوٹا تھا کیونکہ اس وقت پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کو مشکل وقت کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں خواجہ صاحب جیسے لوگ ہی کشتی کو طوفان سے نکال سکتے ہیں اور پھر ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہوجائے اور وزیراعظم انہیں اسلام آباد بلا لیں۔