زندگی اور زندگی کے اصول

شکیل امجد صادق
ایک بوڑھا آدمی کانچ کے برتنوں کا بڑا سا ٹوکرا سر پر اٹھائے شہر بیچنے کے لئے جارہا تھا۔ چلتے چلتے اسے ہلکی سی ٹھوکر لگی تو ایک کانچ کا گلاس ٹوکرے سے پھسل کر نیچے گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ بوڑھا آدمی اپنی اسی رفتار سے چلتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پیچھے چلنے والے ایک اور راہ گیر نے دیکھا تو بھاگ کر بوڑھے کے پاس پہنچا اور کہا:’’ بابا جی! آپ کو شاید پتہ نہیں چلا، پیچھے آپ کا ایک برتن ٹوکرے سے گر کر ٹوٹ گیا ہے‘‘ بوڑھا اپنی رفتار کم کیے بغیر بولا ’’ بیٹا مجھے معلوم ہے ‘‘ : راہ گیر ’’ حیران ہو کر بولا۔۔۔۔ بابا جی! ‘‘ آپ کو معلوم ہے تو رکے نہیں: ’’ بوڑھا ‘‘ بیٹا جو چیز گر کر ٹوٹ گئی اس کے لیے اب رکنا بیکار ہے، بالفرض میں اگر رک جاتا، ٹوکرا زمیں پر رکھتا، اس ٹوٹی چیز کو جو اب جڑ نہیں سکتی کو اٹھا کر دیکھتا، افسوس کرتا، پھر ٹوکرا اٹھا کر سر پر رکھتا تو میں اپنا ٹائم بھی خراب کرتا، ۔۔۔ ٹوکرا رکھنے اور اٹھانے میں کوئی اور نقصان بھی کر لیتا اور شہر میں جو کاروبار کرنا تھا۔ افسوس اور تاسف کے باعث وہ بھی خراب کرتا۔ بیٹا، میں نے ٹوٹے گلاس کو وہیں چھوڑ کر اپنا بہت کچھ بچا لیا ہے ہماری زندگی میں کچھ پریشانیاں، غلط فہمیاں، نقصان اور مصیبتیں بالکل اسی ٹوٹے گلاس کی طرح ہوتی ہیں کہ جن کو ہمیں بھول جانا چاہیے، چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیے کیوں؟؟؟؟؟ کیونکہ یہ وہ بوجھ ہوتے ہیں جو آپ کی رفتار کم کر دیتے ہیں۔ آپ کی مشقت بڑھا دیتے ہیں. آپ کے لیے نئی مصیبتیں اور پریشانیاں گھیر لاتے ہیں آپ سے مسکراہٹ چھین لیتے ہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور چاہت ختم کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے اپنی پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات کو بھولنا سیکھیں اور آگے بڑھ جائیں۔ کامیابی کے لیے دو چیزوں سے محبت لازم ہے ایک منزل سے اور دوسرا منزل پر لے جانے والے رہبر و رہنما یعنی استاد ۔ دنیا کے تمام کاریگروں کے ہنر کو سلام، مگر وہ کاریگر عظیم ہے جو، مزید ایسے کاریگر پیدا کرے جو فن اور ہنر کو زندہ رکھیں ۔ ایسے کاریگر کو استاد کہتے ہیں۔ استاد بنیاد میں لگا پتھر ہوتا ہے، جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ ہم گنبد دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، مگر بنیاد کا پتھر ہمیں نظر نہیں آتا ۔ منزل اور منزل پر لے جانے والے سے محبت جتنی خالص ہو گی کامیابی اتنی ہی کامل ہو گی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا،’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اُستادکا درجہ دیتا ہوں‘‘۔
ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگے۔ اس دوران عالم سے پوچھا، آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر پانی کون ڈال رہا ہے۔ عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے لیکن یہ سن کر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا، انہوں نے جواب دیا کہ ’’ ہاں آپ نے علم کے احترام میں ایسا کیا ہے‘‘۔ ہارون الرشید نے جواب دیا ، ’’ بے شک یہی بات ہے‘‘۔ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب سکھانے کے لئے امام اصمعی کے سپرد کیا۔ ایک دن وہ اتفاقاً ان کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ اپنے پائوں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پائوں پر پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی سے کہا،’’ میں نے تو اسے آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ، آپ اسے آداب سکھائیں گے۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پائوں دھوئے‘‘۔
استاد ایک انمول تحفہ ہوتے ہیں، جن کے بغیر انسان کی شخصیت ادھوری ہو تی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور ﷺکو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
استاد کی عظمت دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے ۔ ایک استاد چیزوں کے بارے میں صرف بتاتا ہے، جبکہ ایک اچھا استاد اس کی وضاحت کرتا ہے اور بہترین استاد عملی طور پر کرکے دکھاتا ہے۔ آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبے اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ آج ایک پولیس مین کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔ مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ لیکن اساتذہ جن کی محنت ، کوشش اور شفقت سے ان کے شاگرد بالا عہدوں پر فائز ہیں ان کی قدر شاگرد کرنے سے قاصر ہیں۔