مخصوص نشستوں کا فیصلہ، ہونا یہی تھا
محمد ناصر شریف
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو فیصلہ سنایا گیا، ہونا ایسا ہی تھا لیکن پتہ نہیں کیوں نام نہاد تجزیہ کار ہر معاملے پر کیوں آسمان سر پر اٹھائے رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن سمیت تمام ریاستی ادارے حاصل اختیارات کی حدود میں کام کرتے ہیں۔ آزاد ارکان کی اتنی بڑی تعداد میں ایک ایسی جماعت میں شمولیت جو ماضی کے انتخابات میں کبھی کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی نہ اس جماعت کے وہم و گمان میں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد ارکان اس میں شامل ہوجائیں گے۔ سنی اتحاد کونسل نے اپنی حدود و حجم کے مطابق مخصوص سیٹوں کے حوالے سے کاغذات جمع ہی نہیں کرائے تھے۔ الیکشن کے بعد انہیں ایک بڑا سرپرائز آزاد ارکان کی شمولیت کی صورت میں مل گیا۔ ورنہ وہ اپنی سیاسی اور انتخابی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست متفقہ طور پر مسترد کردی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ممبر نثار احمد درانی، شاہ محمد جتوئی، بابر حسن بھروانہ اور جسٹس (ر) اکرام اللہ خان نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ 22صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانا آئینی و قانونی تقاضا ہے جو سنی اتحاد کونسل نے پورا نہیں کیا، مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست جمع کرانے میں دو دن کی توسیع کی گئی ، ترجیحی لسٹ جمع نہ کرانا ناقابل علاج عیب ہے، جسے کسی بھی حالت میں درست نہیں کیا جاسکتا۔ آئین یا قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت الیکشن شیڈول ختم ہونے کے بعد نئی ترجیحی فہرست جمع کرائی جاسکے۔ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔ اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں، مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں ان کی سیٹوں کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ سنی اتحاد کونسل نے بطور رجسٹرڈ سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔
ہمیشہ کی طرح تحریک انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور حاصل جمع صرف وقت برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ ویسے ہماری نظر میں عمران خان ایک چالاک انسان ہیں، جنہوں نے اپنی پارٹی کے سارے اہم عہدے سیاستدانوں کے بجائے وکلا کو دیئے ہیں تاکہ وہ عدالتی جنگ بلامعاوضہ لڑتے رہیں اور سیاسی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں وقت آنے پر بآسانی تبدیل بھی کر دیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری نے وزیراعظم کی طرف سے میثاق معیشت و مفاہمت کا خیر مقدم کیا ہے، ساتھ ہی مسائل کے حل کے لئے سیاسی قوتوں کو ملکر کردار ادا کرنے کا کہا ہے ۔ بلاول بھٹو نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے اور اشرافیہ کے لئے سبسڈیز کا خاتمہ کرکے عوام کو سہولت دینے پر زور دیا۔ ساتھ ہی عدالتی و انتخابی اصلاحات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں دوران خطاب کہا کہ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے تنگ آچکے ہیں، اگر ہمیں ووٹ ملے ہیں تو گالیاں اور شور شرابے کیلئے نہیں بلکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ملے ہیں۔ 8سال پہلے چار افراد کا خاندان 35ہزار روپے میں گھریلو اخراجات پورے کر سکتا تھا مگر آج اسے 70ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے مطابق جو وفاقی ادارے اور وزارتیں 2015تک صوبوں کو جانی چاہئیں تھیں وہ ابھی تک نہیں گئیں۔ 18وزارتیں ایسی ہیں جن کا سالانہ خرچہ 328ارب روپے ہے، اگر یہ ادارے 2015میں صوبوں کو منتقل ہوتے تو 800ارب روپے کی بچت ہوسکتی تھی۔ اس وقت اشرافیہ کے پاس 1500ارب روپے جارہے ہیں۔ وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے اور سبسڈیز کے خاتمے سے عوام کو سہولت مل سکے گی۔ سستی بجلی کی فراہمی کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے اسمبلی فلور پر جو باتیں کیں یقینا وہ عوام کی آواز ہے اور بلاول بھٹو جس طرح ملک اور عوام کے حق میں بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ عوام کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
پیر کی رات گئے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ناصرف نئی حکومت کو تسلیم کرلیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ آنے والی پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف پروگرام کو لاگو کرنے کی اہلیت ہے تاہم اگلے چند ماہ میں تشکیل دی گئی معاشی پالیسی پاکستان میں معاشی استحکام کے حوالے سے اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرنا ہماری ترجیح ہوگی۔ اس حوالے سے مشترکہ کوشش کرنا ہوگی کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات درست سمت میں چلتے رہیں اگر پاکستان معاشی اصلاحات کے اپنے عزم پر قائم رہتا ہے تو یہ ریفارمز سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریں گی اور شرح نمو میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ ہمیں اعتماد ہے کہ پاکستان یہ کر سکتا ہے اور ایک قرض پر انحصار سے آزادی پا سکتا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون ، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، ترکیہ کے صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، چینی وزارت خارجہ کی ترجمان مانینگ، فلسطین کے صدر محمود عباس نے نئی حکومت کے قیام پر شہباز شریف کو مبارکباد دی ہے، جس سے یہ تاثر زائل ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کوئی ایسی تشویش پائی جاتی ہے بلکہ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خواہاں ہے۔ اس تمام تر تناظر کا گہرائی سے جائز لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ نئی اتحادی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام کو برقرار رکھنا ہے، اسی بنیاد پر نئی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنا جائے گا، اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے خاتمے اور پٹرولیم مصنوعات پر 18فیصد اضافی ٹیکس لگانے کے مطالبات نئی حکومت کیلئے پہلا بجٹ متوازن رکھنے کو مزید مشکل بنائیں گے، اس تمام تر صورت حال میں نئی حکومت کیلئے پہلا سال انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو طے کرے گا کہ حکومت کی سمت کیا ہے، ایک اور بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اگر آصف علی زرداری صدارتی انتخابات جیت جاتے ہیں جس کے امکانات یقین کی حد تک ہیں تو اس اتحاد کے پاس آئینی اور انتظامی تمام عہدے موجود ہوں اور اگر یہ ملکر ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر اس پہلے سال میں ہی حکومت معاشی چیلنجز کو کنٹرول کرنے کی اہلیت ظاہر کر دے تو ٹھیک ورنہ ایک مضبوط اپوزیشن حکومت کو ٹھکانے کیلئے تیار کھڑی ہے۔