Column

آن لائن ارننگ، بے روزگاری میں کمی کا بڑا ذریعہ

رفیع صحرائی
وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب کے بڑے شہروں میں وائی فائی کی سہولت مفت کر کے نوجوان طبقے کے دل جیت لیے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت آٹھ کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈیا کے صارف ہیں۔ جو زیادہ تر فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹویٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اچھی چیز ہے۔ آپ پوری دنیا سے جڑے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے اہم واقعات،حالات کی تبدیلیوں، اہم ایجادات اور دریافتوں سے باخبر رہتے ہیں۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد یا روزگار کے لیے اپنا کر مالی فائدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب تو بڑے اداروں نے اپنے معاملات آن لائن چلانا شروع کر دئیے ہیں۔ بینکنگ کا پورا نظام آن لائن ہو گیا ہے۔ آن لائن تجارت بھی عروج پر ہے۔ اب آپ کو شاپنگ کے لیے بازار یا مارکیٹ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آن لائن شاپنگ کی سہولت موجود ہے۔ اپنی مرضی کی چیز منتخب کر کے آرڈر کر دیں۔ کوریئر کے ذریعے سامان آپ کے دئیے گئے پتے پر پہنچ جائے گا۔ آپ کے پاس کیش آن ڈلیوری کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ ایک ہاتھ سے سامان لیں اور دوسرے ہاتھ سے قیمت کی ادائیگی کریں۔
دیکھا جائے تو کمپیوٹر نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لوگ گھر بیٹھے آن لائن کام کر کے لاکھوں روپے مہینہ کما رہے ہیں۔ جتنا کام کریں گے اس کا پورا پورا معاوضہ مل جائے گا۔ اب تو ایسے جدید ترین موبائل فون بھی آ گئے ہیں جنہیں آپ منی کمپیوٹرز کہہ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے تمام فیچرز اور فنکشنز ان میں موجود ہوتے ہیں۔
مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ ہمارے ہاں کتنے فیصد لوگ ہیں جو آن لائن کاروبار سے وابستہ ہیں۔ سروے کر کے دیکھ لیں۔ ایک فیصد لوگ بھی آن لائن کاروبار نہیں کرتے۔ یہ کس قدر المیہ ہے کہ ہماری کل آبادی کا چالیس فیصد آن لائن رہتا ہے مگر آن لائن رہ کر اس سے مالی منفعت حاصل کرنے والے ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ یہ قصور کس کا ہے؟
ہمارے نوجوان جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، بے تحاشہ انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ چوبیس میں سے 12 سے 16 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں مگر اکثریت اس قابل بھی نہیں کہ اپنی جیب سے انٹر نیٹ کا پیکیج ہی لگوا لے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہمارے نوجوان خوابوں کی دنیا سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ رات رات بھر جاگنا اور صبح دیر سے بیدار ہونا ان کی عادت بن چکی ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد شعور حاصل کرنا یا شخصیت کو سنوارنا اور نکھارنا نہیں ہے۔ نہ ہی والدین اپنے بچوں کو اس مقصد کے لیے تعلیم دلواتے ہیں کہ تعلیم حاصل کر کے ان کی اولاد سلیقہ شعار بن جائے گی۔ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ اچھی نوکری کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور نوکری بھی سرکاری ہونی چاہیے تاکہ بڑھاپے میں پنشن لگ جائے۔ حکومت کے پاس اس قدر آسامیاں نہیں ہوتیں کہ تمام لوگوں کو ملازمتیں دے سکے چنانچہ یہ نوجوان مایوس ہو کر بے راہ روی اختیار کر لیتے ہیں۔
جو شخص موبائل چلا لیتا ہے اس کے لیے کمپیوٹر سیکھنا مشکل نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ صرف سرکاری نوکری ہی منزل نہیں ہے۔ روزگار تو وہ گھر بیٹھے بھی کما سکتے ہیں۔ اور کام کے لیے وقت بھی اپنی مرضی سے صرف کریں۔ انسٹا گرام، فیس بک، یو ٹیوب، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کا استعمال محض تفریحی مقاصد کے لیے چھوڑیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
2022 میں 25 اکتوبر بروز منگل کو واٹس ایپ کی سروس قریباً دو گھنٹے کے لیے عارضی طور پر بند ہوئی تو یوں لگا جیسے کوئی بھونچال آ گیا ہو۔ ہوا یوں کہ منگل کے روز صارفین کو تقریباً 11 بج کر 50 منٹ پر واٹس ایپ کے استعمال میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، سب سے پہلے واٹس ایپ کے گروپس میں صارفین پیغامات بھیجنے سے قاصر ہوئے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے بتایا کہ واٹس ایپ گروپس میں میسجز نہیں جارہے جب کہ انفرادی طور پر صارفیں کو چیٹنگ کرنے میں مسئلہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں وہ صارفین جو واٹس ایپ کا ڈیسک ٹاپ ورژن استعمال کر رہے ہیں، انہیں فون سے ایپ کنیکٹ کرنے میں بھی مسئلے ہورہے ہیں۔ بس پھر عجیب طوفان برپا ہو گیا جیسے کوئی عزیز ترین چیز کھو گئی ہو۔ جن کو بر وقت پتا چل گیا وہ تو صبر شکر کر کے بیٹھ گئے مگر اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو بار بار اپنے فون آف اور آن کر رہے تھے۔ گویا واٹس ایپ ان کے لیے آکسیجن تھی جس کی عدم موجودگی میں ان کا دم گُھٹ رہا تھا۔ اس دن کافی لوگ ایسے تھے جنہیں کئی دنوں بعد اپنے گھر والوں یا پڑوسیوں سے ڈائریکٹ بات کرنے کا موقع ملا اور انہیں پتا چلا کہ ہمارے گھر میں یا آس پاس کچھ اور لوگ بھی رہتے ہیں جن میں سے کچھ بہت اچھے بھی ہیں۔
آج کل اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ گھر کے اندر بھی ایک ہی کمرے میں موجود چھ سات افرادٍ خانہ بیٹھے ہوتے ہیں مگر سبھی ایک دوسرے سے لاتعلق اور اجنبی بنے ہوئے اپنے اپنے موبائل فون میں مگن ہوتے ہیں۔ ہم وہ فارغ قوم بن چکے ہیں جس کے پاس سوشل میڈیا پر ضائع کرنے کے لیے وقت ہی وقت ہے مگر ایک دوسرے کے لیے پانچ منٹ بھی نہیں ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور ٹیبلٹ کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ
شہروں اور قصبوں میں ہنگامی طور پر آئی ٹی سکلز سکھانے کے ادارے قائم کرنے کی منظوری دے کر اس پر فوری کام شروع کروا دیں تو یہ خوشحال پنجاب اور خوشحال پاکستان کی منزل کی جانب اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔ ہماری قوم خصوصاً نوجوان بڑے ٹیلنٹڈ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کی رسیا اس قوم کی مثبت سمت میں رہنمائی کی جائے۔ اسی سوشل میڈیا کو ان کے لیے کمائی کا اوزار بنا دیا جائے۔ اس کام کے لیے حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ حکومت نوجوانوں کو آسان اقساط پر اچھی کوالٹی کے لیپ ٹاپ مہیا کرے۔ ہر شہر اور قصبے میں تربیتی ادارے قائم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ جاب یا کام دینے والے اداروں اور فرموں تک ان نوجوانوں کی رہنمائی اور رسائی یقینی بنائے۔ اس سے نہ صرف بیروزگاری میں کمی لانے میں مدد ملے گی بلکہ نوجوان بھی اپنا وقت مثبت کاموں میں صرف کر کے ذہنی آسودگی حاصل کریں گے اور بے راہ روی سے بھی بچ جائیں گے۔ یہی نہیں، وہ خود بھی خوش حال ہوں گے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر ملک کو بھی خوش حال بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ بس ضرورت درست سمت کے تعین کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button