جاگیرداری نظام ، سیاست اور کمزور جمہوریت

آصف علی درانی
کئی چینلز کو دیکھتا ہوں، اخبارات کو دیکھتا ہوں ، ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور باقی جگہوں یعنی گلی محلوں اور بازاروں میں لوگوں سے سنتا ہوں ہر طرف آج کل جمہوریت بک رہی ہے۔ ہر کوئی جمہوریت کے حوالے سے باتیں کر رہا ہیں۔ جمہوریت کیا ہے یا کسے کہتے ہیں؟
جمہوری حکومت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے کہ جس میں طاقت عوام کو دی جاتی ہے، جو اسے براہ راست یا منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر بولنے کی آزادی ، قانون کی حکمرانی اور انصاف وغیرہ جیسے بہت سے بنیادی اصول شامل ہوتے ہیں۔
اس کا مقصد مجموعی بھلائی کو ترجیح دینا اس کے علاوہ انسانی حقوق کی حفاظت کرنا اور اس چیز کو یقینی بنانا کہ حکومت عوام کی ضروریات کے لیے ہر وقت ذمہ دار رہیں۔
لیکن ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ ہر جگہ کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے ، ہر جگہ کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے ، ہر جگہ کے لوگوں کی اپنی ایک آب و ہوا ہوتی ہے اور اس آب و ہوا میں ہر طرح کی چیزیں ایک ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ۔ اسی طرح سے اگر ہم جمہوریت کے حوالے سے ہم ان علاقوں کا ذکر کریں ، ہم ترقی پذیر ممالک کا ذکر کریں تو یہی کہوں گا کہ ان علاقوں میں جمہوریت وہ کامیابی کی علامت نہیں ہے ، جمہوریت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ میں یہی کہوں گا کہ ہمارے جیسے ملکوں کے اندر جمہوریت ایک ایسی بَلا ہے ، ایک ایسی بدصورت خاتون ہے جس کو میک کپ کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے اور وہ اتنی حسین بنا دی گئی ہے کہ آج ہم میں سے ہر کوئی اسی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، لیکن جمہوریت کا اصل چہرہ جس طرح میں نے ابھی بتایا کہ انتہائی بدصورت ہے اس کو میک اپ کے ذریعے خوبصورت بنایا گیا ہے۔ کیسی جمہوریت کہ جس میں عوام کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں ، کیسی جمہوریت کہ جس میں امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے کیسی جمہوریت کہ جہاں پر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو کوئی اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا، کیسی جمہوریت کہ جس میں ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے، کیسی جمہوریت کہ جہاں پر عدالتیں دکانیں بنی ہوءی ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں مظلوم انصاف مہنگے داموں خرید رہا ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر ظلم کے بنیادی حقوق کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہو، پختونخوا اور بلوچستان سب کے سامنے ہیں اور آج کل ہماری میڈیا پر صرف انتخابات کی باتیں ہورہی ہیں کس کو کونسی وزارت مل گئی یا ملنے والی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر کوئی اپنے حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتا، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک صحافی سچ لکھ اور بول نہیں سکتا اور اگر لکھے بھی تو ایڈیٹرز صاحبان اور میڈیا مالکان اشتہارات اور بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے ان صحافیوں کی لکھائی یا باتوں کو مسترد کرتے ہیں وجہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑا ہوتا ہے یعنی بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے وہ بڑے بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے یہ بوٹ ان کے لیے آئینہ ہوتی ہے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ظلم برداشت کر رہے ہیں۔ میں ایسی جمہوریت کا اور کیسے تذکرہ کروں مجھے نہیں چاہیے ایسی جمہوریت۔۔۔
بقول حبیب جالب:
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالب ہماری حسرت ہے
پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے لیکن جس طرح میں نے پہلے کالم میں بتایا تھا کہ پاکستان کی یہ ایک تاریخ ہے یہاں پر ہر الیکشن کے بعد یہ سننے کو ملتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے یا ہوئی تھی سنہ اٹھارہ کے انتخابات کے بعد تو ہمارے کان اس بات کی وجہ سے پک چکے تھے کہ یہ الیکٹڈ وزیراعظم نہیں بلکہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں تھا کہ اسی وقت عوام کو یہ بتاتے کہ اس نے اس کو سلیکٹ کیا ہے وجہ یہ ہے کہ یہاں ہر لیکن مجھے نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں ہر سیاست دان بوٹ میں اپنا چہرہ کیوں دیکھتا ہے اور بوٹ سے اتنا ڈرتا کیوں ہے آخر اس بوٹ میں ہے کیا اب تو مولانا نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے آپ یہ کیوں نہیں بتاتے ملک کو تو ویسے بھی بوٹ اور سیاستدانوں نے اس جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا کہ ترقی کرنے کی تمنا جو تھوڑی بہت غریب عوام کے دلوں میں تھیں وہ بھی ختم ہوئی۔ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن ذلیل ہوتا ہے اور ان صاحبان کے بچے باہر ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اگر سیاست دانوں کی بات کریں تو وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان کی کرپشن عوام کو نظر آتی ہے اور چونکہ بوٹ زور آور ہے تو ان کا کسی کو پتا نہیں چلتا اس کے علاوہ اگر گزرے ہوئے الیکشن کی بات کریں تو ان میں آزاد کے علاوہ ایسے بندے کھڑے تھے کہ بیچارہ نظر گل نظر خود حیران تھا مطلب پارٹی کی بنیاد جس شخص نے رکھی تھی ان کو دنیا سے گئے ہوئے کئی برس ہوئے، لیکن ان کے پوتے ان کا نام استعمال کرتے تھے اور جلسوں میں انہی کی نام پر ووٹ مانگتے تھے اس میں سارا قصور ہمارے پاکستانی عوام کا بھی ہے کہ جس کو بات کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا انکو ووٹ دیا اور آج کل ان کو بڑی بڑی وزارتیں مل رہی ہیں ۔ اگر جاگیرداری نظام کی بات کریں تو پاکستانی سیاست میں جاگیرداری نظام بہت عام ہے جس طرح جاگیرداری نظام میں والد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اس کا جانشین ہوتا ہے اسی طرح پاکستانی سیاست میں بھی ہے دادا کے بعد بیٹا بیٹے کے بعد پوتا اور اس طرح سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان حالات میں ملک و قوم ترقی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے پاکستان میں شروع سے یہی نظام چلتا آرہا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود نظر گل نظر جوکہ ایک سادہ آدمی ہے اخبار بھی حجام کی دکان میں پڑھتا ہے اتنا غریب ہے باقی آپ خود اندازہ لگا لے کہ کتنا سادہ آدمی ہوگا کسی نے اس کو کہا ہے کہ پختونخوا میں شہد کی نہریں بہیں گی جس نے بھی ان کو یہ بتایا ہے ٹھیک نہیں کیا بیچارہ کافی پریشان ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے عجیب کشمکش میں مبتلا ہے۔