7 ہزار سال قدیم شہر گنویری والا میں کھدائی کا آغاز
بہاول پور (رانا محبوب علی سے) کمشنر بہاول پور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور، معروف آرکیالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق مغل، سی ای او تھاپ ساجدہ ونڈل اور ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی پنجاب شوذب سعید نے چولستان کے صحرا میں 7ہزار سال پرانی تہذیب کے شہر گنویری والا کو منظر عام پر لانے کے لیے کھدائی کے کاموں کا افتتاح کردیا۔
اس موقع پر سیّد عاطف امجد علی ، ایچ او ڈی سکول آف کریٹو آرٹس ، یونیورسٹی آف لاہور ، ڈین اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شازیہ انجم، صدر شعبہ آرکیالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد وقار مشتاق،ڈائریکٹر سی ڈی اے لیاقت علی گیلانی، ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر، امتیاز لاشاری، ماہرین آرکیالوجی، اسسٹنٹ کمشنر یزمان مجاہد عباس، صاحبزادہ عادل عباسی، صاحبزادہ عفان عباسی،طلباء و طالبات موجود تھے۔
کمشنر بہاول پور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چولستان میں گنویری والا شہر کے آثار80 ہیکٹر رقبہ پر مشتمل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گنویری والا قدیم انڈس تہذیب کے آثار پر مشتمل ہے اور موہنجودڑو کے بعد گنویری والا دوسرا بڑا قدیم شہر چولستان میں مدفون ہے۔ کمشنر بہاول پور ڈویژن نے کہا کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی خصوصی دلچسپی سے گنویری والا منصوبہ کے آغاز کے لیے فنڈز کی دستیابی ممکن ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قلعہ ڈیراور کو اقوام متحدہ کی عارضی تاریخی ورثہ کی لسٹ میں شامل کیا جا چکا ہے اور اقوام متحدہ کی مستقل تاریخی ورثہ کی لسٹ میں شمولیت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ عالمی اداروں کے تعاون سے قلعہ ڈیراور اور دیگر تاریخی قلعوں کو ان کی تاریخی حیثیت کے مطابق محفوظ وبحال کیا جائے۔
کمشنر بہاول پور ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ صحرائے چولستان میں موجود500 سے زائد تاریخی سائٹس اور19 قلعوں کو محفوظ و بحال کر کے صحرا میں اوپن میوزیم قائم کیے جائیں گے جس سے نہ صرف تاریخی ورثہ محفوظ ہوگا بلکہ انٹرنیشنل سیاحت کو فروغ دینے کے روشن امکانات حاصل ہوں گے۔
کمشنر بہاول پور ڈویژن نے کہا کہ چولستان کے اندر ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا پوٹیشنل موجود ہے۔ ہم اس کی تہذیب کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں موجود قدرتی ماحول سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے گنویری والا سائٹ پر کھدائی کے آغاز کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گنویری والا موہنجودڑو سے چھوٹا لیکن ہڑپہ سے بڑا شہر تھا۔موہن جودڑو اور ہڑپہ کی طرح عمومی طور پر اس دور کے شہر نسبتاً بلند جگہوں پر اور ایک مرکزی ٹیلے کے گردآباد کیے جاتے تھے۔ گنویری والا بھی اسی انداز میں ٹیلے پر آباد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان محقق اور جامعات کے طلبا وطالبات کو ریسرچ کے لیے اس سائٹ پر خصوصی توجہ دیں تاکہ دنیا کے سامنے ہم اس گمشدہ تہذیب کے آثار کو لاسکیں۔ ڈی جی آرکیالوجی شوذب سعید نے کہا کہ حکومت پنجاب کے منصوبہ کے مطابق نامور ماہرین آثارِ قدیمہ کی زیر نگرانی گنویری والا کی کھدائی کے کام کاآغاز کردیا گیا ہے اور ماہرین کی8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ماہر آثار قدیمہ و سابق ڈی جی آرکیالوجی ڈاکٹر رفیق مغل کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر کی دریافت سے ماضی کے کئی اسرار اور تہذیب و ثقافت دنیا کے سامنے آئیں گے۔سی ای او تھاپ پروفیسر ساجدہ ونڈل نے بتایا کہ گنویری والا کے ٹیلے، قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں اوریہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے جبکہ موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ آثار 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے دریافت کیے تھے لیکن آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔
سی ای او تھاپ پروفیسر ساجدہ ونڈل نے کہا کہ اس مقام پر مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو وادی سندھ کے دیگر مقامات پر پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ مٹی کے برتن اورکچھ نوادرات بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔