بجلی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ

ملک کے غریب عوام پچھلے 5، 6 سال سے بدترین مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں۔ اُن پر روزانہ ہی کوئی نہ کوئی بڑا بوجھ بلاسوچے سمجھے لاد دیا جاتا ہے اور یہ روش عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کردیا جاتا ہے تو کبھی گیس کے دام بہ یک جنبش قلم بڑھا دیے جاتے ہیں اور کبھی بجلی کی قیمت میں ظالمانہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ غریبوں کی آمدن وہی ہے، لیکن اُن کے اخراجات تین، چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ اُنہیں روح اور جسم کے رشتے کو اُستوار رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اوپر سے اشیاء ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اُن کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہم وہ قوم ہیں، جس نے سالہا سال تک بجلی کے بدترین بحران کا سامنا کیا ہے۔ معیشت کو اس باعث ناقابل تلافی نقصانات بھگتنے پڑے۔ قوم پر ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ بجلی موجود کم ہوتی تھی اور غائب زیادہ رہتی تھی۔ بدترین لوڈشیڈنگ کے طویل سلسلے تھے۔ عوام سراپا احتجاج نظر آتے تھے۔ سابق ادوار میں بجلی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بازگشت سنائی دی۔ بجلی غائب رہنے کے دورانیوں میں کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران حکومتی سطح پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تو بڑے طمطراق سے کیے گئے مگر سستی بجلی کی پیداوار کے بارے میں زبانیں خاموش رہیں۔ قوم پر مہنگی بجلی کا بم ہر کچھ عرصے بعد برسایا جاتا رہا اور اب عالم یہ ہوگیا کہ وطن عزیز میں خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی استعمال کی جارہی ہے۔ غریب عوام کی آمدن سے زائد بجلی بل اُنہیں موصول ہوتے ہیں۔ دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے بجلی کے ماہانہ بل موصول ہونے کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ دوسری جانب چین، ایران، بھارت، بنگلادیش وغیرہ میں بجلی انتہائی سستی ہے اور ان ملکوں کے عوام کو اس سہولت کے بدلی محض اپنی آمدن کا معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز میں تو بجلی بل کی ادائیگی کے لیے جمع پونجی ختم ہوجاتی ہے اور زیورات تک بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ گراں بجلی کے حوالے سے صورت حال یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہر کچھ عرصے بعد بجلی کی قیمت میں اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تین چار ماہ قبل بجلی قیمت میں ہوش رُبا اضافے پر ملک گیر احتجاج کے سلسلے دراز نظر آئے۔ تاجروں اور عوام نے بجلی قیمت میں اضافے کو یکسر مسترد کردیا۔ بجلی کی قیمت دہری ہوگئی، جس کی ادائیگی کرتے کرتے غریب کی کمر بھی دہری ہوچکی ہے۔ ملک گیر احتجاج کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بل بھرنے ہی پڑے۔ اب تو تمام حدیں ہی پار کرتے ہوئے بجلی قیمت میں فی یونٹ 7 روپے سے زائد اضافہ کرکے غریبوں کے لیے مزید اذیت کا سامان کردیا گیا ہے۔ تازہ ترین میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں وفاقی حکومت نے جاتے جاتے بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا۔ بجلی 7 روپے 5 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی۔ بجلی جنوری کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔ نیپرا نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اضافی وصولیاں مارچ کے بلز میں کی جائیں گی۔ بجلی صارفین پر 66 ارب روپے کا مزید اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ نئی قیمتوں کے بارے میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو آگاہ کردیا گیا ہے، ان کمپنیوں نے نئے بلوں میں نئی قیمتیں وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بجلی قیمت میں تاریخی بلند ترین اضافہ عوام کے حق میں ہرگز مناسب فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بجلی قیمت میں 7 روپے 5 پیسے کا اضافہ یقیناً غریب صارفین کے لیے سوہانِ روح ہے۔ وہ پہلے ہی بہ مشکل بجلی بل کی ادائیگی کر پارہے تھے، اس کے لیے انہیں کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے۔ اب مزید بھاری بھر کم بار اُن پر ایک دم آن پڑا ہے۔ ضروری ہے کہ وسیع تر عوامی مفاد میں بجلی کی قیمت بڑھانے سے گریز کی روش اختیار کی جائے اور سستی بجلی کی پیداوار کے لیے سنجیدگی سے ناصرف سوچا جائے بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی یقینی بنائے جائیں۔ بجلی گراں کرنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا، یہ سراسر عوام کے مصائب بڑھنے کی وجہ بنتا ہے۔ بدترین مہنگائی کے اس دور میں اُن کے لیے زندگی پہلے ہی کٹھن ہے۔ اُنہیں اپنے گھروں کا معاشی نظام چلانے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اُن کی مشکلات میں اضافے کی وجہ نہیں بنتے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے کچھ تو کیا جائے۔ سابق حکومتیں تو اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر رہیں، اب تو اس حوالے سے قدم بڑھالیے جائیں۔ اس معاملے میں تاخیر کی ہرگز گنجائش نہیں، جوں جوں اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہے گا، مسئلہ اور سنگین ہوتا چلا جائے گا اور بجلی کی پیداوار بھی مزید گراں ہوتی رہے گی۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑائی جائے اور ملک میں استعمال ہونے والی تمام تر بجلی سستے ذرائع (ہوا، پانی، سورج) سے حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے عملی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ منصوبے بنائے جائیں اور اُنہیں جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز بنائے جائیں۔ ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس سے ناصرف ملک بھر میں لاحق آبی قلت کا سنگین مسئلہ حل ہوسکے گا، بلکہ پانی کے ذریعے وافر اور سستی بجلی کی پیداوار بھی ممکن ہوسکے گی۔ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے منصوبے لگائے جائیں۔ یہ تمام منصوبے انسان دوست ماحول کے حامل ہیں۔ سستے ذرائع سے ہم ناصرف ملکی ضروریات کے مطابق بجلی کشید کرسکتے ہیں بلکہ اسے بیرونِ ملک فروخت کرکے معقول ملکی آمدن بڑھاسکتے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں نیک نیتی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں۔ ملک اور قوم کے مفاد کو اوّلیت دی جائے۔ اس حوالے سے تاخیر کی اب چنداں گنجائش نہیں۔
اسرائیلی حملوں میں30ہزار فلسطینی شہید
فلسطین میں اسرائیلی سفّاکیت، درندگی کا سلسلہ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ کتنے ہی بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا، معصوم اطفال سے بھی حقِ زیست چھین لینے میں تامل نہیں کیا جاتا، مسلمانوں کے قبلہ اوّل کے تقدس کی پامالی معمول تھی، ظلم و ستم کے سلسلے دراز تھے، آخر کب تک مظلوم فلسطینی چپ سادھے بیٹھے رہتے، ظلم کے خلاف آواز اُٹھنی ہی تھی اور اسی عَلَم کو بلند کرتے ہوئے لگ بھگ ساڑھے چار ماہ قبل حماس نے اسرائیل پر 5ہزار میزائل فائر کرکے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔ اسرائیل ان اچانک حملوں کو بوکھلا سا گیا اور پھر پلٹ کر انتہائی سفّاکیت سے حملے در حملوں کا سلسلہ شروع کیا جو 4مہینے 22دنوں سے جاری ہیں اور ان کے نتیجے میں 30ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہسپتالوں پر حملے کیے، سکولوں کو نشانہ بنایا، عبادت گاہوں کو تباہ کیا اور امدادی اداروں کے مراکز کو بھی حملوں کی زد میں رکھا۔ غزہ کا انفرا سٹرکچر برباد کر دیا گیا ہے۔ ہر سُو عمارتوں کے ملبوں کے ڈھیر دِکھائی دیتے ہیں۔ ان ملبوں تلے جانے کتنے جاں بحق ہوچکے اور نامعلوم کتنے زیست کی ختم ہوتی سانسیں گِن رہے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ کہیں اولادیں والدین کی موت کے غم میں ڈوبی ہوئی ہیں تو کہیں ماں، باپ اپنے بچوں کے جاں بحق ہونے پر دُنیا کے ہولناک ترین کرب سے گزر رہے ہیں، بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا، خوراک، پانی اور ادویہ کا بدترین بحران درپیش ہے، طرح طرح کی وبائیں پھوٹ رہی ہیں۔ فلسطین آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے اسرائیل سے حملے بند کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف بھی پچھلے ہفتوں اسرائیل کو حملے روکنے کا حکم دے چکی۔ پوری دُنیا کے ممالک اسرائیل سے جنگ بندی کے مطالبات متواتر کررہے ہیں۔ اب تو وہ بھی جنگ بندی کے مطالبے دہرارہے ہیں جو اسرائیلی حملوں کے آغاز میں اُسے معصوم اور فلسطینیوں کو ظالم ٹھہراتے نہیں تھک رہے تھے۔ اسرائیل کسی پر کان نہیں دھر رہا۔ پوری دُنیا نے بیانات کی حد تک ایڑی چوٹی کا زور لگالیا، لیکن اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہی۔ کیا انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے کو روکنے کی کسی میں جرأت و ہمت نہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں 24گھنٹوں کے دوران مزید 96فلسطینی جاں بحق اور 172زخمی ہوگئے۔ حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت نے بتایا، شہداء کی مجموعی تعداد30 ہزار سے زائد اور زخمیوں کی تعداد 70ہزار 215ہوگئی۔ بیان میں کہا گیا، اسرائیلی فورسز کی جانب سے ایمبولینسوں اور شہری دفاع کی ٹیموں تک رسائی میں رکاوٹ کی وجہ سے کچھ متاثرین ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اسرائیلی مظالم تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ ظالم جب حد سے گزر جائے تو اُس کا وقتِ آخر نزدیک ہوتا ہے، ان شاء اللہ اسرائیل کے خاتمے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ اللہ کی مدد مظلوم فلسطینیوں کے شاملِ حال ہوگی اور وہ دن جلد آئے گا جب اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔