Column

خط بنام IMFمنجانب عمران خان

صفدر احمد سندھو
عمران خان نے جیل سے آئی ایم ایف کو خط لکھا جس کے بہت چرچے ہیں۔ یہ خط کیا ہے آئیے اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ مگر پہلے انہوں نے یہ خط کیوں لکھا۔ قارئین پی ڈی ایم کی پہلی حکومت تھی، خان صاحب زمان پارک میں تھے پاکستان آئی ایم ایف سے لون کے حصول کے لئے مذاکرات کر رہا تھا مگر بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی تھی۔IMFکو کوئی چٹ نہیں ملی تھی اور وہ طے شدہ طریق پر کام کر رہا تھا اسے قرض کی واپسی کی فکر تھی لہذاimfچاہتا تھا وہ مقبول لیڈر سے گارنٹی لے قرض کی واپسی کی لہذا imfکا وفد پاکستان آیا اور زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی اور قرض کی منظوری اور واپسی کی خان سے بھی گارنٹی مانگی، خان نے کہا قرض ضرور دیں مگر قرض پر چیک رکھیں کیا قرض کی رقم عوام پر خرچ ہو رہی ہے یا منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ کرپشن میں ملوث حکمران قابل اعتماد نہیں دوسرے شرط الیکشن کا انعقاد اور الیکشن میں شفافیت تھی ۔Imfنے عمران خان سے اتفاق کیا، اب عمران خط کے ذریعے Imfکو یاد دلانا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے الیکشن میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے۔ آپ اس کی تفتیش کریں مگر imfکو امریکہ سے چٹ مل چکی ہے اب اسے نہ تو قرض کی واپسی میں دلچسپی ہے اور نہ ہی شرائط میں، اس کا بیان آگیا ہے وہ پاکستان کی منتخب حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ منظور شدہ قرض کی آخری قسط بھی ادا کریں گے اور مزید 6ارب قرض کی منظوری کے لیے گفت و شنید بھی کریں گے ۔ یہ تو تھی imfکی حقیقت جس پر خان صاحب کو تکیہ تھا ۔Imfایک مالیاتی ادارہ ہے جو ضرورت مند ممالک کو ملک کی ترقی کیلئے فنڈز فراہم کرتا ہے مگر فنڈز امیر ممالک فراہم کرتے ہیں اور وہی Imfکی مالیاتی پالیسیاں بناتے ہیں اور قرض خواہ ممالک کو قرض دینے یا نہ دینے کا دبائو بھی ڈالتے ہیں۔ پاکستان کو Imfقرض لینے کا اہل نہیں سمجھتا تھا پاکستانی مقتدرہ کی ناک رگڑوا کر امریکہ نے Imfپر دبائو ڈالا اور پاکستان کو قرض کا اہل قرار دیا اور فنڈز جاری کئے جس کی آخری اور تیسری قسط مارچ میں پاکستان کو ادا کرنی ہے۔29فروری تک شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے اور Pdmکا دوسرا دور شروع ہو جائیگا۔ لندن پلان یہی تھا اور اسی پر نواز شریف متفق ہو کر پاکستان آیا تھا۔ نواز شریف کا مقصد مریم کو وزیر اعظم بنانا تھا وہ وزیر اعلیٰ بن گئی اور یقینا وزیر اعظم بھی بنے گی اگر کسی طور اسٹیبلشمنٹ سے کسی نے طاقت نہ چھین لی جس کے بظاہر آثار نظر نہیں آتے۔ سکرپٹ کے مطابق فضل الرحمان اپوزیشن کا رول ادا کریں گے اور بوقت ضرورت راجہ ریاض کی طرح حکومت کو سپورٹ بھی کریں اور کرپشن سے اپنا حصہ وصول کرتے رہیں گے اور کے پی کے میں اپوزیشن لیڈر بن کر اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ سیاست کے اس عوامی سیناریو میں جہاں اسٹیبلشمنٹ ننگی ہوئی ، نام نہاد سیاستدان مزید ننگے ہوئے سول سروس جوڈیشری ننگی ہوئی وہاں عوام بھی ننگے ہو گئے الیکشن 2024نے انہیں ان کی اوقات بتا دی، نہ ووٹوں سے حکومتیں بنتی ہیں نہ ووٹوں سے حکومتیں ٹوٹتی ہیں، عوام محض کھلونے ہیں جنہیں لائنوں میں کھڑے کرکے بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ الیکشن 2024کا رزلٹ ان کو جواب ہے جو الیکشن سے قبل کہتے تھے، اس ظلم کا جواب ہم ووٹوں سے دیں گے، جو کہتے تھے 10مئی کو خان باہر ہو گا۔ ووٹوں سے کچھ نہیں ہوا جیل والے جیل میں ہیں اور لندن پلان والے اقتدار میں۔ سوشل میڈیا پر طعنے دینے اور گالیاں دینے کی روش ناکام ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ باتوں اور طعنوں سے سوشل میڈیا پر سٹیم خارج ہو جاتی ہے جو انقلاب کیلئے ضروری ہے سوشل میڈیا بھی مقتدرہ کی مدد کا ذریعہ ہے۔ تحریک انصاف کے شعور کو عمل میں تبدیل کرنا ہو گا ورنہ یہ شعور پھر اسی گندے نالے میں بہہ جائیگا جو مقتدرہ کا سمندر ہے۔ طاقت کا جواب طاقت ہوتی ہے۔ انقلاب لانے کے لئے عمران خان کے سامنے تین راستے تھے۔ مائو کا راستہ۔ خمینی والا راستہ ( فرانس میں بیٹھ کر انقلاب کی رہنمائی) اور منڈیلا کا راستہ ۔ خان صاحب نے منڈیلا کا راستہ اختیار کیا جو منڈیلا کو تو ہیرو بنا گیا مگر سائوتھ افریقہ کے عوام، سوال تشنہ۔ کیا خان جیل سے نکل پائے گا ؟ کیا ووٹوں کی برسات 202جعلی مقدمات کی سیاہی دھو پائے گی ؟ منتشر عوام کو منظم کرنا ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کون منظم کریگا۔ خان جیل میں ہے۔ پارٹی کو کبھی بھی انقلابی بنیادوں پر منظم نہیں کیا گیا۔ میں 1996میں پارٹی کی پہلی میٹنگ میں شامل تھا بہت کم لوگ تھے میجر بشیر کو پارٹی کا پہلا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ میجر بشیر لینڈ ڈویلپر تھے پارٹی معاملات میں کم ہی دلچسپی لیتے۔ معراج محمد خان کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا میری بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ بہت بڑا انقلابی ذہن تھا وہ اسٹیبلشمنٹ، جوڈیشری کی ذہنیت سے آگاہ تھا وہ جانتا تھا جاگیردار، جرنیل جج اور ملاں ایک ہیں اور یہ کسی آسان طریقے سے عوام کو اقتدار منتقل نہیں کریں گے، معراج محمد خان کا خان سے نظریاتی اشتراک بھی نہیں تھا، صحت اور مالی حالات بھی سیاست کی اجازت نہیں دیتے تھے لہذا مستعفی ہو گئے، پھر نام بھول گیا ایک ایئر مارشل کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا وہ بھی خانہ پُری تھی ، پنجاب کے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری جنرل وائس ایڈمرل جاوید اقبال تھے اسلام آباد کے علاوہ لاہور میں ایک ہی آفس گارڈن میں تھا۔ پارٹی کے مالی، نظریاتی تنظیمی سب حالات پُر خاش تھے۔ خان صاحب جماعت اسلامی سے بہت متاثر تھے جو ایک تنظیم ہے مگر سیاسی پارٹی کبھی نہیں بن سکی سہاروں کے ساتھ چلنے کی عادت پارٹی کو لے ڈوبی۔ خان صاحب نے بھی جماعت والا راستہ اختیار کیا ۔ پہلے ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے اسٹبلشمنٹ تک پہنچنے کی کوشش ، پھر جنرل پاشا سے ملاقات، نتیجہ بظاہر بہت خوب، 2010میں یوم تاسیس جاوید اقبال کی گلبرگ والی کوٹھی کے لان میں منعقد کیا وہی 200کے قریب لوگ اور 2011میں مینار پاکستان میں یاد گار جلسہ معجزہ اور اس معجزہ کے پیچھے کچھ تو راز داری ہے۔ پھر خان صاحب نے پلٹ کر نہیں دیکھا جو پیچھے رہ گئے سو گئے ایڈمرل آج بھی اسی گلبرگ والی کوٹھی میں بیٹھ کر خان کو گالیاں بکتا ہے ۔ 2013میں اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی بندر بانٹ کی اور Kpkمیں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا، بظاہر یہ حکومت تحریک انصاف کی تھی مگر حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کی تھی پرویز خٹک انہی کا وزیر اعلیٰ تھا۔ پرویز خٹک کا بیان ریکارڈ میں ہے، میرا آئیڈیل شہباز شریف ہے، دونوں بوٹ پالش میں ماہر ہیں مگر شہباز بہت آگے۔ پی ٹی آئی کا منشور تھا پارٹی کو وراثتی چنگل سے آزاد کھنا ہے۔2013 ء کے الیکشن میں خان صاحب نے اپنے دونوں کزنز انعام اللہ نیازی اور حفیظ نیازی کو ٹکٹ نہیں دیا تھا کیونکہ فارمولا کے مطابق ڈسٹرکٹ قیادت نے دونوں کو ریکمنڈ نہیں کیا تھا مگر شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے وراثتی سیاست کو رواج دیا اور خان کی بات نہ مانی جاگیردار جرنیل، ججز، سیاسی ملاں کا خان سے نظریاتی اشتراک نہیں تھا تو پھر تنظیمی پارٹی کیسے بنتی۔ پارٹی کا مرکزی ڈھانچہ نظریاتی کارکنوں پر ہونا چاہیے تھا پارٹی ان کو پرموٹ کرتی نام بناتی ان کے پاس تنظیمی ڈھانچہ کھڑے کرنے کا اختیار ہوتا تاکہ میدان میں اترتے تو اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین کو یقین ہوتا خان کے بعد نظریاتی قائدین کی لائن ہے۔ پیپلز پارٹی بھی ون مین شو تھا اور پی ٹی آئی بھی دونوں نے کبھی تنظیمی ڈھانچہ پر توجہ ہی نہیں دی۔ پی ٹی آئی کے پاس ووٹرز کا طوفان ہے مگر تنظیم نہیں۔ تنظیم سازی سے خان صاحب کی عدم توجہ کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں پہلے انہوں نے اعجاز چودھری کو تنظیمی سربراہ بنایا جو انتہائی غیر مستعد ہیں دوسرے سیف اللہ نیازی جنہیں پڑوسی بھی شاید نہ جانتے ہیں اور بھاگنے والوں میں وہ اوّل رہا۔ میانوالی پنجاب کا سب سے آخری ضلع ہے جس کے ڈانڈے ہندکو اور پشتو سپیکنگ سے ملتے ہیں سرائیکی سے لہجہ تو ملتا ہے مگر سرائیکی لوگ میانوالی کو پٹھان ایریا گردانتے ہیں۔ سیف اللہ کی سنٹرل پنجاب میں تو کوئی پہنچان ہی نہیں تھی۔ تنظیم پارٹی کی بنیاد ہوتی ہے جس پر بلڈنگ تعمیر ہوتی ہے۔
ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ نے 2011کے کامیاب جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے اندر اپنے لوگ داخل کرنے شروع کر دئے تھے پرویز خٹک گروپ، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، چودھری سرور، ریحام خان، اسد عمر، بشریٰ بیگم، کے علاوہ بہت سے وننگ ہارسز سب کسی اور کے گھوڑے تھے پی ٹی آئی کے نہیں۔ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھول چکے مگر انہی کی اولادوں پر انحصار کرتے ہیں۔ جنرل عمر کا بیٹا اسد عمر جنرل سیکرٹری اب ایوب خان کا پوتا جنرل سیکرٹری فواد حسن نواز شریف کا ہم نوالہ نواز کے دبائو پر کیئر ٹیکر وزیر اور اسی کا بھائی یوسف حسن تحریک انصاف کا سپوکس پرسن یہ سارے حربے بھٹو نے استعمال کئے متروک شدہ۔ خان ہماری ریڈ لائن ہے ریڈ لائن کب کی کراس ہو چکی ووٹ دینے تو آئے اور اندازوں سے زیادہ آئے، مگر ووٹ کافی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button