Column

ماہِ شعبان المعظم اور شبِ برات کی فضیلت

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ شعبان میرا مہینہ ہے ، رجب اللہ کا اور رمضان المبارک میری امت کا، شعبان گناہوں کو دور کرنے والا ہے اور رمضان بالکل جلا کر پاک کر دینے والا مہینہ ہے‘‘۔
حضرت سیدنا اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسولؐ اللہ میں آپؐ کو شعبان کے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ آپؐ کسی بھی مہینے میں اس طرح روزے نہیں رکھتے۔ فرمایا: رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینہ ہے، لوگ اس سے غافل ہیں، اس میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العزت کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔ ( سنن نسائی)
یعنی ماہِ شعبان اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین مہینہ ہے اور شب برات ( جوکہ ماہِ شعبان ہی کی رات ہے) اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ رات ہے ماہِ شعبان کے نصف کو ’’ شبِ برات‘‘ ہوتی ہے۔ شبِ برات ایک تو بدبخت لوگ اللہ تعالیٰ سے مزید دور ہوجاتے ہیں دوسرا اولیاء اللہ اور مومن ذلت اور گمراہی سے دور ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ ہم اسلامی مملکت میں رہتے ہیں جہاں پر ہم آزادی کے ساتھ قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اسلامی تہوار منا رہے ہیں ان تہواروں میں ایک شب برات ہے شب برات کی اہمیت اور اس کی فضیلت تقریباً ہر مسلمان جانتا ہے کہ یہ رات صرف اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب پاکؐ کے امتیوں کو ایک بہت بڑے انعام کی صورت میں عطا فرمائی ہے ہم سے پہلے کسی قوم کو یہ رات نہیں ملی اس رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے رحمتوں اور بخششوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ان مہربانیوں اور بخششوں کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ اس روایت سے کیا جاتا ہے کہ ’’ اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنی کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ گاروں کی بخشش فرما دیتا ہے‘‘ اور جنت کو غلامان مصطفیؐ کیلئے سجانے کا حکم دیا جاتا ہے۔
اس ماہ کی 15ویں شب کو ’’ شبِ برات‘‘ کہتے ہیں جو لیل القدر کے بعد سال بھر کی تمام مقدس راتوں سے افضل ہے شب برات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم انعام ہے جو اپنے دامن میں ہمارے لئے بے بہار حمتیں، برکتیں اور سعادتیں لے کر جلوہ گر ہوتی ہے اس کے تقدس اور عظمت کا تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس کا استقبال ذکر و عبادت ،توبہ اور استغفار، درود و سلام، نوافل، تلاوت اور دعا سے کریں۔ لیکن بد قسمتی سے بعض لوگ پاکستان میں شب برات کا آغاز آتش بازی اور پٹاخوں سے کرتے ہیں اور مختلف قسم کے دھماکہ خیز مواد اور انواع و اقسام کے بارودی پٹاخوں سے اس رات کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ جیسے ہی ماہ شعبان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو شہر شہر ، گلی گلی، کوچہ اور بازاروں میں دکانیں آتش بازی کے سامان سے ہی سج جاتی ہیں اور بے تحاشا خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہر طرف آتش بازی سے بدبودار ماحول پیدا ہوجاتا ہے حالانکہ یہ ایک شیطانی کھیل ہے اور نمرودی طریقہ کار ہے جس سے قلب اور ذہن ظاہری و باطنی طور پر متاثر ہو جاتاہے اور ذکر و عبادت میں وہ کامل یکسوئی پیدا نہیں ہو پاتی جو کہ پیدا ہونی چاہئے ۔ جو لوگ پر سکون ہو کر اس رات اپنے مالک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتے ہیں ان کیلئے چاروں طرف آگ بارود دھماکوں اور شور شرابہ کے ماحول میں ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس طرح اس مقدس اور رحمت والی رات میں بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے عبادت میں مصروف لوگوں کو سخت پریشانی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ بہت بڑا گناہ ہے ان پٹا خوں کو تیار کرنے والے اور بیچنے والے یقینا مسلمان ہوں گے اس کی ایک وجہ ہماری آگاہی نہ ہونا اور دوسری انتظامیہ کی کاہلی و سستی ہے کیونکہ انتظامیہ والے بھی جانتے ہیں کہ ان کی تیاری اور آمد کہاں کہاں سے ہوتی ہے قانون نافذ کرنے والوں کی سستی اور چشم پوشی کیا معنی رکھتی ہے ان پٹاخوں میں ایک کا نام ماچس پٹاخہ یا چاءنا پٹاخہ ہے یہ دو سال کا بچہ بھی چلا سکتا ہے یہی پٹاخہ فساد کی جڑ بن جاتا ہے جب راہ چلتے ہوئے خواتین و حضرات، سکول جاتی ہوئی طالبات، راہ چلتی کسی بھی سواری میں یا گلی محلوں میں کسی بھی گھر میں پھینک کر آگ لگا دیں یا خوف و ہراس پیدا کر دیں لیکن قانون آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا یہ ہماری بد قسمتی ہے خوف خداوندی سے ہم بالکل بے نیاز ہو چکے ہیں حالانکہ ایسی قبیح اور بد ترین حرکت کا وبال یقینا والدین، عوام اور حکومت سب پر آئے گا ہم سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ آتش بازی پر مکمل طور پر پابندی نافذ کرے تاکہ ہم سب مسلمان اس مقدس اور برکتوں بھری رات اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر تلاوت قرآن پاک پڑھ کر نوافل اور درود پاک پڑھ کر مقدس رات گزاریں حضورؐ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور اس مبارک مہینہ میں رحمت عالمؐ، معصوم کائناتؐ کی یہ حالت ہوتی کہ آپؐ سجدے میں جبین نیاز رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ الفاظ ادا فرماتے : ’’ یا اللہ ! میرا جسم اور میرا دل صرف تجھے سجدہ کرتا ہے، میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے، میں تیرے عذاب سے بچنے کیلئے تیری پناہ میں آتا ہوں، تیرے غضب سے بچنے کیلئے تیری رضا کا طالب ہوں، تیرے عذاب سے امن میں رہنے کیلئے تجھ ہی سے درخواست کرتا ہوں، تیری حمد و ثناء کوئی بیان نہیں کر سکتا، تو نے آپ اپنی ثناء کی ہے تو ہی آپ اپنی ثناء کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا‘‘۔
کسی نے اس کا سبب پوچھا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ شعبان کے درمیان موت لکھی جاتی ہے میں چاہتا ہوں کہ جب میری موت لکھی جائے تو میں روزے سے ہوں، شعبان میں نامہ اعمال اٹھایا جاتا ہے حضورؐ نے فرمایا جب میرا نامہ اعمال اٹھایا جائے تو میں روزے سے ہوں‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضورؐ اور اولیاء کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا ء فرما ئے دُعا ہے کہ اللہ ہماری پستی کی اس حالت زار پر رحم فرمائے اور ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا فرمائے اور ہمیں ماہ شعبان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید فرمائے۔

جواب دیں

Back to top button