کلکتہ ہائیکورٹ کا ’سیتا‘ اور ’اکبر‘ کا نام بدلنے کا حکم

انڈین ریاست مغربی بنگال کی کلکتہ ہائی کورٹ کے سرکٹ بنچ نے ایک دلچسپ مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو ایک چڑیا گھر میں ’اکبر‘ نامی شیر اور ’سیتا‘ نامی شیرنی کے نام تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس سے قبل سخت گیر ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے مغربی بنگال کے شمالی شہر سلی گوڑی کے ’نارتھ بنگال وائلڈ اینیمل پارک‘ میں موجود ایک شیر کا نام ’اکبر‘ اور شیرنی کا نام ’سیتا‘ رکھنے اور انھیں ایک ہی پنجرے میں رکھے جانے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
بی بی سی کے نامہ نگار امنگ پوددار نے اس درخواست پر عدالت کے فیصلے کے بعد انوج بھووانیہ سے بات کی جو مفاد عامہ کی درخواست پر ایک کتاب کے مصنف اور آئینی معاملات کے ماہر ہیں۔
بھوانیہ نے کہا کہ ’اس معاملے میں کسی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے، نہ ہی اس سے متعلق کوئی قانون ہے، پھر بھی ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ عدالتوں کو محسوس نہیں ہوتا کہ ایسے معاملات میں قانونی مداخلت کی کوئی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو جرمانے کے ساتھ اس درخواست کو خارج کر دینا چاہیے تھا یا پھر رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے درخواست گزار سے درخواست واپس لینے کو کہا جا سکتا تھا۔
وی ایچ پی کی درخواست پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے جسٹس سوگت بھٹاچاریہ نے کئی دلچسپ ریمارکس دیے۔ انھوں نے حکومتی وکیل کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ضمیر سے پوچھیں اور تنازع سے گریز کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’مغربی بنگال پہلے ہی کئی تنازعات سے نبردآزما ہے، ایسی صورت حال میں شیر اور شیرنی کے ناموں کے تنازع سے بچا جا سکتا تھا۔ کسی بھی جانور کا نام ایسے شخص کے نام پر نہیں رکھنا چاہیے جو عام لوگوں کے لیے قابل احترام ہو۔‘
عدالت نے ریاستی حکومت کے وکیل دیب جیوتی چودھری سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے پالتو جانور کا نام کسی ہندو دیوتا یا مسلمان پیغمبر کے نام پر رکھیں گے۔
جج نے کہا کہ ’ملک کا ایک بڑا طبقہ سیتا کی پوجا کرتا ہے اور اکبر ایک سیکولر مغل بادشاہ تھا۔ کیا کوئی کسی جانور کا نام رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر رکھ سکتا ہے؟‘
اس شکایت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث بھی چھڑی اور طرح طرح کے میمز کے ساتھ انڈیا کی بدلی ہوئی شبیہ پر بھی تبصرے کیے گئے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ اینیمل ایکسچینج پروگرام کے تحت 12 فروری کو تریپورہ کے سیپاہی جالا چڑیا گھر سے آٹھ جانوروں کو سلی گوڑی کے چڑیا گھر میں لایا گیا تھا۔ ان جانوروں میں ’اکبر‘ نامی شیر اور ’سیتا‘ نام کی شیرنی بھی شامل تھے۔
وشوا ہندو پریشد نے کلکتہ ہائیکورٹ کے سرکٹ بینچ سے رجوع کیا اور یہ درخواست دائر کی تھی کہ جانوروں کے پارک میں ایک شیرنی کا نام ’سیتا‘ اور شیر کا نام ’اکبر‘ رکھا گیا ہے اور ایسا کر کے حکام نے ہندو مذہب سے متعلق مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘
تاہم حکام کی جانب سے اس کی تردید کی گئی۔
انڈین میڈیا کے مطابق ہندو تنظیم نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ جانوروں کے ایسے نام رکھنا ’بیہودہ‘ اور ’غیر معقول‘ ہے اور یہ ’توہین مذہب‘ کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ ’سیتا‘ ہندو مذہب کی ایک معروف دیوی کا نام بھی ہے جو بھگوان رام کی اہلیہ ہیں۔
ہندو تنظیم کا کہنا ہے کہ تنظیم کے نمائندوں نے کئی بار متعلقہ افسران سے ملاقات کی اور اس سلسلے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
وشوا ہندو پریشد نے مغربی بنگال کے پولیس کمشنر کے نام جو درخواست دی اس میں انھوں نے شیرنی کا نام سیتا رکھے جانے پر شدید غم و غصے کے اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک جانور کا نام بھگوان رام کی بیوی ’سیتا‘ کے نام پر رکھا گیا ہے جو دنیا بھر کے تمام ہندوؤں کے لیے ایک مقدس دیوی ہیں۔ اس طرح کا عمل توہین مذہب کے مترادف ہے اور یہ ہندوؤں کے مذہبی عقیدے پر براہ راست حملہ ہے۔‘
قانونی ویب سائٹ ’لائیو لا‘ کے مطابق وشوا ہندو پریشد نے عدالت میں دائر اپنی درخواست میں لکھا کہ ’14 فروری 2024 کو درخواست گزاروں کی نظر اس انتہائی حیران کن خبر پر پڑی جس کا عنوان تھا ’ساتھی کی تلاش میں سیتا بے چین۔‘ اتفاق سے نر شیر کو ’اکبر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل میں فحش انداز میں اشارہ کیا گیا تھا اور اس خبر کو انتہائی قابل اعتراض انداز میں پیش کیا گیا جس سے ملک بھر کے تمام ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی۔‘
ہندو تنظیم کے رہنما دلال چندر رائے نے اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا اس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوں گے؟ ہم ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر لگاتے رہے لیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب ہم نے عدالت کا رخ کیا ہے۔‘
وشوا ہندو پریشد نے عدالت سے شیر اور شیرنی کے نام تبدیل کرنے کی درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ ایسا نام دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
دوسری جانب مغربی بنگال میں برسر اقتدار پارٹی ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان اور وزیر برائے جنگلات بیرباہا ہنسدا نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ وشوا ہندو پریشد اس معاملے پر ’سستی سیاست‘ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم نے تریپورہ چڑیا گھر سے لائے گئے جانوروں کے نام نہیں رکھے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے یہ نام رکھے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ان جانوروں کے نام باضابطہ طور پر رکھیں گی۔ یہ جانور تریپورہ کے چڑیا گھر سے آئے ہیں، ممکن ہے کہ یہ نام انھیں وہاں دیے گئے ہوں۔‘
حکام کے مطابق ’اکبر‘ سات سال آٹھ ماہ کا شیر ہے اور ’سیتا‘ پانچ سال چھ ماہ کی شیرنی ہے۔
قرون وسطی کے ہندوستان پر گہری نظر رکھنے والی امریکی مؤرخ اور مصنف آڈری ٹرشکی نے ’لائیو لا‘ کی خبر پوسٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’کیا شیروں کا جماع توہین مذہب ہو سکتی ہے؟ ہندو قوم پرست جماعت وشوا ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ ہاں، ایسا ہو سکتا مگر جب سیتا اور اکبر اس میں شامل ہوں۔‘
انھوں نے مزید کئی ٹویٹس میں لکھا ہے کہ ’آپ نے لوو جہاد تو سنا ہو گا، اب لائن جہاد سُنیے۔‘
کسی نے لکھا کہ ’سیتا‘ کا نام بدل کر جودھا رکھ دیجیے تو کسی نے پوچھا کہ کیا سیتا گوشت کھا سکتی ہے، کیونکہ شیرنی تو گوشت کھاتی ہے۔
لائبہ فردوس نامی صارف نے لکھا کہ ’کیا ہم طنز و مزاح کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ شیرنی سیتا کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ شیر اکبر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں۔‘
بہت سے لوگوں میمز کے طور پر شیر اور شیرنی کی شادی کی تصاویر بھی پیش کی ہیں جبکہ بہت سوں نے لکھا ہے کہ ’کیا آپ نے کبھی سرکس کے علاوہ کبھی اتنی مضحکہ خیز بات سنی ہے۔‘